سوال (4837)

ہر وہ کام جو کسی ممنوع کام کا وسیلہ بنے تو وہ بھی ممنوع ہے، اور عقود میں داخل ہونے والی ہر چیز دیکھی جائے گی کہ آیا جب وہ چیز اکیلی ہو تو اس کا حکم اسی طرح ہو گا جس طرح ملانے سے ہو گا یا نہیں، شرح السنہ میں اسی طرح ہے۔[مشکاۃ المصابیح: 1779]

جواب

یہ امام خطابی کا قول ہے، مصنف نے حدیث ذکر کرنے کے بعد اس قول کو ذکر کیا ہے، کیونکہ اس حدیث کی اس قول سے مناسبت ہے. مکمل عبارت اس طرح ہے:

عَن أبي حميد السَّاعِدِيّ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلًا مِنَ الأزد يُقَال لَهُ ابْن اللتبية الأتبية عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي فَخَطَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَحَمِدَ اللَّهَ وَأثْنى عَلَيْهِ وَقَالَ:” أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ رِجَالًا مِنْكُمْ عَلَى أُمُور مِمَّا ولاني الله فَيَأْتِي أحدكُم فَيَقُول: هَذَا لكم وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقْرًا لَهُ خُوَارٌ أَوْ شَاة تَيْعر” ثمَّ رفع يَدَيْهِ حَتَّى رَأينَا عفرتي إِبِطَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَل بلغت». قَالَ الْخَطَّابِيُّ: وَفِي قَوْلِهِ: «هَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟» دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ كُلَّ أَمْرٍ يُتَذَرَّعُ بِهِ إِلَى مَحْظُورٍ فَهُوَ مَحْظُورٌ وَكُلُّ دخل فِي الْعُقُودِ يُنْظَرُ هَلْ يَكُونُ حُكْمُهُ عِنْدَ الِانْفِرَادِ كَحُكْمِهِ عِنْدَ الِاقْتِرَانِ أَمْ لَا؟ هَكَذَا فِي شرح السّنة

اصولی قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بذات خود حرام نہ بھی ہو، لیکن حرام کا ذریعہ بنتی ہو، وہ حرام ہی کہلائے گی۔ اسی کو سد الذریعہ بھی کہا جاتا ہے، اسی اصولی مسئلہ کو امام خطابی نے اس حدیث سے اخذ کیا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اس کی کئی ایک مثالیں ہیں، جیسا کہ معبودانِ باطلہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ معبودِ برحق کی توہین کا ذریعہ بن سکتا ہے، اسی طرح زنا اور بدکاری کے وقوع کا ذریعہ بننے والے کاموں کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ وغیرہ.

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

“ہر وہ کام جو کسی ممنوع (حرام) کام کا ذریعہ (وسیلہ) بنے تو وہ بھی ممنوع (حرام) ہوتا ہے”
یہ ایک مشہور فقہی قاعدہ ہے جسے علماء “سد الذرائع” یا “وسائل کا حکم مقاصد کے تابع ہوتا ہے” کے نام سے بیان کرتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی بظاہر جائز کام کسی حرام کام تک لے جاتا ہو تو وہ بھی ناجائز قرار دیا جائے گا۔
“اور عقود (معاہدات) میں داخل ہونے والی ہر چیز دیکھی جائے گی کہ آیا جب وہ چیز اکیلی ہو (یعنی تنہا ہو کر) تو اس کا حکم اسی طرح ہو گا جس طرح ملانے سے ہو گا یا نہیں؟”
یہ بات عقود (معاہدات، خرید و فروخت وغیرہ) کی شرعی حیثیت کو جانچنے کے اصول کی طرف اشارہ کرتی ہے، یعنی:
اگر کوئی چیز اپنے طور پر جائز ہو، لیکن کسی اور چیز کے ساتھ مل کر حرام ہو جائے، تو وہ اس ترکیب کی وجہ سے حرام ہوگی۔
لیکن اگر وہ چیز تنہا بھی حرام ہو، تو اس کو کسی اور چیز کے ساتھ ملانے سے بھی حرام ہی رہے گی۔
امام البغوی رحمہ اللہ نے “شرح السنۃ” میں فقہی قواعد اور معاملات کے اصول بیان کرتے ہوئے اسی قاعدے کا ذکر کیا ہے، کہ:

المباح إذا أفضى إلى محظور صار محظورًا”

یعنی: “کوئی مباح (جائز) چیز اگر کسی محظور (حرام) چیز تک پہنچا دے تو وہ بھی محظور بن جاتی ہے۔”
اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگرچہ اکاؤنٹنٹ بننا جائز ہے، لیکن اگر وہ سودی ادارے میں صرف سودی حساب کتاب کے لیے کام کرے، تو وہ جائز کام ممنوع ہو جائے گا کیونکہ وہ حرام کا وسیلہ بن رہا ہے۔ یا اگر کسی چیز کی خرید و فروخت علیحدہ جائز ہے، لیکن اگر دو چیزوں کو ملا کر بیچنا اس طرح ہو کہ دھوکہ دہی یا سود کا خدشہ ہو تو وہ ناجائز ہو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ