سوال (649)

“وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا”

ميں
دساها اصل میں کیا تھا؟ کیا تعلیل ہوئی اور کس قاعدے کے تحت ہوئی ہے ؟

جواب

علم الصیغہ کے آخر میں بہت سے مشکل صیغے اور ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔ وہاں یہ بھی مذکور ہے۔۔ راجع الیہ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

یہ اصل میں دسس تھا، سین کو الف سے بدل دیا گیا، جیسا کہ قصصت سے قصیت اور لببت سے لبیت وغیرہ ے۔
بطور نکتہ اور علمی فائدہ کے یہ بات بھی عرض کی جا سکتی ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس صیغے کی وضاحت سیر اعلام النبلاء میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے حالات کے ضمن میں بھی کی ہوئی ہے۔ عبارت اس طرح ہے:

«فَمَنْ طَلَبَ العِلْمَ لِلعمل كَسره العِلْمُ، وَبَكَى عَلَى نَفْسِهِ، وَمِنْ طلب العِلْم لِلمدَارس وَالإِفتَاء وَالفخر وَالرِّيَاء، تحَامقَ، وَاختَال، وَازدرَى بِالنَّاسِ، وَأَهْلكه العُجْبُ، وَمَقَتَتْهُ الأَنْفُس{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا … وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا}أَي دسَّسَهَا بِالفجُور وَالمَعْصِيَة قُلِبَتْ فِيْهِ السِّينُ أَلِفاً». [سير أعلام النبلاء 18/ 193 ط الرسالة]

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ