سوال (3705)
“يَطَّلِعُ الله تبارك وتعالى إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النَّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكَ أَوْ مُشَاحِنٍ”
اس روایت کی تحقیق اور تفصیلی راہنمائی درکار ہے۔
جواب
الراوي: معاذ بن جبل• الألباني، تخريج كتاب السنة (٥١٢)• صحيح• أخرجه ابن أبي عاصم في ((السنة)) (٥١٢) واللفظ له، وابن حبان (٥٦٦٥)، والطبراني (٢٠/١٠٨) (٢١٥).
فضیلۃ العالم سید کلیم حسین شاہ حفظہ اللہ
سائل: کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب: صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے.
“عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ”) إ بن ماجہ :1390)
حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے، اس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی، شیطان کی چالیں بھی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر پکارتا ہے حدیث میں ہے.
“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ “
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعتی مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ العالم عبد اللہ عزام حفظہ اللہ
نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں جتنی بھی روایات مروی ہیں سب معلول وضعیف ومنکر ہیں ، عہد نبویہ صلی الله علیہ وسلم اور عہد صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین میں اس رات میں کبھی کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کے برعکس صحیح مسلم کی حدیث مبارک ہی کافی ہے جس میں رب العالمین کے ہر رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر تشریف لانے کا ذکر موجود ہے۔ رہا بعض اہل شام کا اہتمام کرنا تو اس کی بنیاد بعض اسرائیلی روایات ہیں جن کی تائید موافقت قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ کرام سے ہرگز نہیں ہوتی ہے اور دوسری طرف بعض تابعین وسلف صالحین سے اس کی مذمت کرنا بھی موجود ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ