تاریخ پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو روزِ اول سے ہی جہاں عام مسائل و فتنے درپیش ہوتے تھے وہیں ہر زمانے کے کچھ خاص فتنے ہوتے تھے، یہ فتنے بڑے زور و شور سے آتے یوں لگتا کہ سب کچھ بہا کر لے جائیں گے لیکن بالآخر اپنے کچھ اثرات چھوڑ کر نیست ونابود ہو جاتے۔
ان فتنوں کے مقابلے میں دو طریقے اختیار کیے گئے۔
پہلا طریقہ تو یہی تھا کہ اسلام کی اصل اور بنیاد کو مضبوط رکھا جائے، قرآن و سنت کی ٹھوس تعلیمات وہ عقائد ہوں یا فقہ ہو اسے صحیح ترین صورت میں جیسے تیسے اگلی نسل تک منتقل کر دیا جائے اور کسی خاص جگہ پر بوقتِ ضرورت کتاب و سنت کی بنیاد پر فتن کا سرسری رد کر دیا جائے، دوسرے الفاظ میں بہترین و عمدہ اور بلند پایہ علماء تیار کیے جائیں جو دین کے اصول و فروع کا پورا درک رکھتے ہوں، اپنے دین و ایمان کو فتنوں کے سامنے ڈھال بن کر بچا رکھیں۔
دوسرا طریقہ یہ اپنایا گیا کہ ان فتنوں کے رد کے لیے ان میں گھس جایا جائے، شب روز اسی کے سیکھنے سکھانے میں صرف کر دیے جائیں، انہی کو اصل بنا کر فیشنی طور پر دن رات اسی کے گن گائے جائیں، یوں باور کروایا جائے کہ یہ فتنہ گھر گھر آ گیا ہے، بس اب تو دیندار بھی متاثر ہو رہے ہیں، سب ختم ہونے والا ہے، پھر عالم صرف اسے سمجھا جائے جو اس فتنے پر بات کرے، پڑھا لکھا اور جدت پسند اسی کو خیال کیا جائے جس کے شب و روز اس فتنے کے رد میں لگیں، اس کے علاوہ دینی تعلیمات کے محافظ اور کتاب و سنت کے علمبرداروں پر طعن و تشنیع کر کے انہیں جدید فتنوں سے جاہل و نابلد باور کروایا جائے ۔
فتنے آئے اور چلے گئے لیکن یہ بات سمجھا گئے کہ علماء و محدثین کا طریقہ بالکل درست تھا کہ جنہوں نے فتنوں پر رد کو اصل بنانے کی بجائے اپنی علمی میراث کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا اور اسے من وعن آگے منتقل کرنے کی کوشش میں جُتْ گئے۔
کبھی فلسفہ یونان کا فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا، علم الکلام کا صدیوں طوطی بولتا رہا، فتنۂ اعتزال نے سالوں راج کیا، مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو گیا، ایسا وقت بھی آیا کہ مقابلے میں امام احمد رحمہ اللہ جیسے انگلیوں کی تعداد سے بھی کم گنتی بَند باندھ کر کھڑی رہ گئی، یوں لگتا تھا کہ اب اسلام سمیت کسی مذہب کا کچھ نہیں بچے گا، اُس وقت جن لوگوں نے بجائے کتاب و سنت کے فلسفہ یونان سیکھنے پر وقت صرف کیا، علم الکلام میں مہارتیں حاصل کرنے لگ گئے انہوں نے سب سے زیادہ اسلامی ورثے کو نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے عقائد میں بھی مسلمانوں کے فرقے بن گئے ۔
لیکن ان سب کے مقابلے میں علماء ربانین کا ایک ہی طریقہ رہا اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہی صحیح راستہ تھا ۔
الحاد، فیمینزم، لبرلزم، سیکولرازم وغیرہ بھی ہمارے دور کے وقتی فتنوں میں سے ہیں، ہو سکتا ہے یہ بھی آئندہ کچھ صدیاں اسی طرح چلتے رہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دور کے فتنوں کا پھیلاؤ سائنسی ایجادات کی بدولت زیادہ ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اِن کی بنیاد فلسفہ یونان، علم کلام و اعتزال کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور و رکیک ہے، وہ باقاعدہ مذاہب کی طرح منظم اصول و قواعد پر مبنی فتنے تھے جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔
بہرحال تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، ایک گروہ کا طرزِ عمل بالکل اسی طرح ہے کہ دن رات الحاد وغیرہ کا رد ہو، جو اس پر رد کرے وہ عالم ہے، باقی سب جاہل و نابلد اور دقیانوسی سوچ کے حاملین ہیں، فیشن اور ٹرینڈ بن گیا ہے کہ فلاں چونکہ الحاد کا رد کرتا ہے اس لیے کمال کا پڑھا لکھا و انٹلیکچویل ہے، نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ہر جگہ بس انہی فتنوں پر بات ہو، خطبات جمعہ ہوں یا دروس قرآن، تعلیم و تعلم ہو یا درس و تدریس ہر جگہ ایک ہی بات ہو الحاد، فیمن ازم، سیکولرازم وغیرہ وغیرہ ۔
اس طرزِ فکر کو کتاب و سنت کے اعتبار سے دیکھنے کی بجائے صرف تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نہایت سطحی، غیر ذمہ دارانہ اور جذباتی رویہ ہے، تاریخِ اسلامی میں جس فتنے کا بھی یوں استقبال کیا گیا اس کا دورانیہ بڑھتا چلا گیا اور اس کے نقصانات امت زیادہ سے زیادہ تر ہوتے گئے، فلسفہ یونان پر رد کرتے کرتے کتنے جبل اس سے جا متاثر ہوئے، کیسے کیسے ذہین وفطین علم کلام کے رد کی کوشش میں خود متاثر ہوئے، اعتزال کے گورکھ دھندے سے الجھے اور اپنی اگلی کئی نسلوں تک کو ان برے جراثیم سے متاثر کرتے گئے ۔
مختصر یہ کہ فیشنی و وقتی فتنوں کا یوں استقبال امت کے لیے ہمیشہ خطرناک رہا ہے۔
حافظ محمد طاھر