سوال

حاجی محمد دین ڈوگرولد شہباز ڈوگرجوکہ وفات پاچکے  ہیں انہوں نے 6ایکڑ 2کنال زمین چھوڑی ہے ۔جبکہ ان کے بیوی بچے ان کی زندگی میں وفات پا چکے تھے۔ موجودہ رقبہ انہوں نے خود خریدا تھا۔(محمد دین کے والد نےدو شادیاں کیں تھیں ایک بیوی سے محمد دین اور محمد صابر اور ان کی ایک بیٹی تھی اور دوسری بیوی سے ایک بیٹا عبدالغفار اور ایک بیٹی تھیں) ان کے رشتہ داروں میں  ایک بھائی محمد صابر جو کہ محمد دین کی وفات کے کچھ دنوں بعد وفات پا گئے تھے۔ محمد صابر کی اولاد موجود ہےاور ایک بہن موجود ہے اور دوسری ماں سے ایک بھائی عبدالغفار اور ایک بہن موجودہیں ۔

جبکہ محمد دین ڈوگر نے حرم شریف میں وصیت کی تھی ،کہ میری زمین جائیداد جامعہ رحمانیہ کنگن پور کے لئے وقف کردی گئی ہے ۔اس موقع پر ان کے ساتھ محمد دین ڈوگر والد عمردین اور خالد محمود ولد قاری محمد صادق اور چار خواتین موقع پر موجود تھے۔ پھر واپس آ کر کچھ لوگوں کے پوچھنے پر جن میں سردار شاہر محمد ڈوگر ولد عمردین شامل ہیں، انہوں نے اپنے موقف کو تبدیل کیا اور کہا کہ میں اپنی زمین جائیداد اپنے رشتہ داروں کو بھی دوں گا اور مسجد اور مدرسہ جامعہ رحمانیہ کو بھی دوں گا۔  اس وصیت کے چند روز بعد حاجی محمد دین ولد شہباز ڈوگر  وفات پا گئے ۔ ان کے چند روز بعد ان کے بھائی محمد صابر بھی وفات پا گئے ۔اب صابر کی اولاد موجود ہے۔اور محمد دین کی ایک سگی بہن اور دوسری ماں سے ایک بھائی عبدالغفار اور ایک بہن موجود ہے۔ اہل علم علماء سے درخواست ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس جگہ کی تقسیم کیسےکی جائےگی؟  محمد دین ولد محمد شہباز کی وصیت کے مطابق رشتہ داروں کو کتنا حصہ ملتا ہے۔ اور مسجد کے حصہ میں کیا آتا ہے۔ اور مدرسہ کے حصہ میں کیا آتا ہے ؟ تاکہ وصیت کرنے والے کی وصیت کو پورا کیا جا سکے۔                                             سائل:محمد دین ولد عمردین قوم ڈوگرکنگن پور قصور

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • وصیت ایک تہائی (3/1) سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر محمد دین نے ساری جائیداد کی بھی وصیت کی ہو، تو وہ صرف ایک تہائی ہی نافذ ہوگی، اس سے زیاد ہ نہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ، قُلْتُ: أُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ: «النِّصْفُ كَثِيرٌ»، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: “الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ”. [بخاری:2744، مسلم:1628]

’میرا وصیت کرنے کا ارادہ ہے اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نصف مال تو زیادہ ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ایک تہائی ٹھیک ہے اور یہ بھی ايك  بڑی مقدار ہے‘۔

لہذا اگر کوئی مسجد مدرسہ کے لیے بھی جگہ وقف کرنا چاہتا ہو، تو اسے مسئلہ سمجھانا چاہیے کہ ساری کی ساری جائیداد اس طرح وقف نہیں کی جاسکتی۔

  • اس حساب سےجائیداد میں سے وصیت کے مطابق 3/1مسجد اور مدرسہ کو دیا جائے گا۔باقی 3/2ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ جائیداد کے کل 54 حصے کیےجائیں۔اس میں 3/1 ، 18 حصے بنیں گے۔ وصیت کے مطابق یہ 18 حصے مدرسہ اور مسجد کو دیےجائیں گے۔ جب 54 میں سے 18نکال دیے جائیں تو باقی 36 بچتے ہیں۔

ان 36 میں سے 3/1مادری (اخيافى) بہن بھائیوں (یعنی عبد الغفار اور اس کی ایک بہن) کا ہے، جو کہ 12 حصے بنتے ہیں، اور یہ دونوں میں برابر یعنی 6،6 حصے تقسیم ہوں گے۔ کیونکہ اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ برابر ہوتا ہے۔

36 میں سے 12 نکال دیں تو باقی 24حصے بچتے ہیں۔ان کو صابر اور اس کی بہن میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ بہن کے مقابلے میں صابر کو دوگنا ملے۔کیونکہ حکم الٰہی  ہے:

 “یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ  الْاُنْثَیَیْنِۚ”(سورۃ النساء: 11)

’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے‘۔

اس طرح  24 میں سے 16 محمد صابر کے، اور 8 اس کی بہن کے ہوں گے۔ اور پھر صابر کا جو حصہ ہے، وہ آگے اس کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ