سوال
میری چھوٹی بہن کا پہلا نکاح خالہ زاد کے ساتھ ہوا، جو کہ ہمارے والد صاحب نے کیا، جبکہ اس وقت اس کی عمر دس سال تھی۔ میری بہن کے مطابق وہ اس وقت راضی تھی۔ نکاح ہوا مگر رخصتی نہیں کی گئی۔ کچھ ماہ بعد والد صاحب وفات پاگئے۔ اور میں اس وقت جامعہ میں زیر تعلیم تھا اور وہیں رہتا تھا، والدہ اس سے پہلے ہی وفات پا گئیں تھیں۔ اس لیے ہماری خالہ میری بہن کو لینے آگئیں ۔ ان کے مطابق انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو قریب نہیں آنے دیں گے، جب تک یہ بالغ نہ ہو جائے۔ کچھ سال بعد میری بہن نے بتایا کہ اس کے خاوند کے بھائی اس کے ساتھ کچھ نازیبا حرکات کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس نے ہماری خالہ سے کیا، مگر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اور اس کے خاوند نے بھی اس بات کو سنی ان سنی کر دیا۔ پھر ہماری بہن نے اشارے کنائے سے ہمیں بتایا کہ وہ وہاں نہیں رہنا چاہتی ،تو میں اپنی تائی امی کے ساتھ جا کر اسے لے آیا ۔ بعد میں گھر کے تمام بڑے، تایا ابو اور دوسری طرف سے خالہ اور ان کے بیٹے بیٹھے، تو انہیں آگاہ کیا کہ بچی نہیں جانا چاہتی۔ میری بہن نے سامنے آکر جانے سے انکار کردیا۔ وہ لوگ چلے گئے۔ نکاح پڑھانے والے میرے تایا ابو ہی تھے، اور چھوٹی عمر کا نکاح تھا، اور حکومت کی طرف سے ان دنوں چھوٹی عمر کے نکاح پڑھانے اور درج کرنے والے علمائے کرام کی پکڑ دھکڑ چل رہی تھی، اس لئے ان کا معاملہ ختم ہوتا دیکھ کر ،تایا ابو نے نکاح نامہ ضائع کردیا ۔
بعد ازاں شہر کے نامی گرامی جامعہ کے نامی گرامی احادیث کی کتابیں پڑھانے والے علمائےکرام سے رابطہ کرکے مسئلہ پوچھا گیا، تو جواب یہی ملا کہ اگر بیٹی نہیں جانا چاہتی، تو نکاح فسخ ہے۔ یعنی اگر نا بالغ لڑکی کی شادی کر دی گئی ہے، اور وہ بالغ ہوکر یہ کہہ دے کہ وہ یہ نکاح نہیں رکھنا چاہتی ،تو اسکا نکاح فسخ ہے ،جبکہ اس کی رخصتی بھی نہ ہوئی ہو۔ اس کے بعد میری بہن کی مرضی سے اس کی شادی میری پھوپھو کی بیٹی کے بیٹے سے کی گئی، جو کہ عمر میں میری بہن سے تین سال بڑا ہے۔ اب ماشاء اللہ ان دونوں کے تین بچے ہیں۔ اس دوران میری شادی ایک نامی گرامی عالم دین، جو کہ میرے استاد ہی ہیں، کے گھر ہوئی۔ ان کو جب اس مسئلے کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نکاح صحیح نہیں ،بلکہ تم لوگوں کو چاہیے کہ پہلے اس کا خلع لو ، پھر اگلا نکاح دوبارہ کرو۔ اور ان کے جو بچے ہیں وہ بھی زنا کی اولاد ہیں۔ حالانکہ ہم نے پہلے ہی میری بہن کے پہلے خاوند سے خلع کا مطالبہ کیا ،تو اس نے دینے سے انکار کردیا تھا۔ اور آج بھی وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے اسے خلع نہیں دیا۔
صورت مذکورہ میں ہم عدالت بھی نہیں جاسکتے ۔ برائے مہربانی اس مسئلہ کا جواب دیں کہ صورت مذکورہ میں میری بہن کے پہلے نکاح اور دوسرے نکاح کی کیا حیثیت ہے؟ اگر پہلا نکاح ابھی بھی قائم ہے تو انہیں اب کیا کرنا چاہیے؟ جواب مرحمت فرما کر عند اللہ ماجور اور عندنا مشکور ہوں۔فجزاکم اللہ خیرا
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر کسی لڑکی کا نکاح بچپن میں کر دیا جائے ، تو وہ نکاح اسکےسن ِبلوغ کو پہنچنے پر موقوف ہوتا ہے۔ بالغہ ہونے کےبعد اس لڑکی کی صوابدید پرہے، کہ وہ اس نکاح کو قبول کرلے، یا پھر اس کو فسخ کروالے۔
اور یہ فسخ یا تنسیخ لڑکی خود بخود نہیں کرلے گی، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ عدالت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
اگر عدالت کی طرف رجوع ممکن نہ ہو، تو کم ازکم اس کے قائم مقام جرگہ یا پنچائیت کے ذریعہ یہ نکاح ختم کیا جائے گا۔ خود بخود سوچ لینے سے نکاح فسخ نہیں ہوتا۔ یہ بہت اہم بندھن ہے، اس کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار سے گزرنا ضروری ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کردیا گیا، تو اس نے خود بخود اس کو ختم نہیں کیا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی، اور آپ نے اس کا فسخِ نکاح کیا۔ [بخاری:5138]
لہذا صورتِ مسؤلہ میں اگر تو پہلا نکاح واقعتا کم ازکم ایک پنچائیت کے ذریعے فسخ کردیا گیا تھا، تو پھر بعد والے نکاح میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، تو پھر اب دوبارہ عدالت کی طرف رجوع کریں، اور وہاں سے نکاح فسخ کروائیں، اور اگریہ ممکن نہیں تو کم ازکم ایک معتبر پنچائیت کے ذریعے یہ کام کریں۔
جب تک یہ معاملہ نہیں ہوتا، تب تک فوری طور پر میاں بیوی کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اور فسخِ نکاح کے بعد عورت ایک ماہ عدت گزارے، اور پھر اپنی پھوپھو کی بیٹی کے بیٹے کے ساتھ تمام شرائط و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا نکاح کرے۔
باقی رہا بچوں کا معاملہ، تو وہ حلال النسب ہیں، ان کو زنا کی پیداوار نہیں کہیں گے۔کیونکہ اس صورت کو ’شبہ النکاح‘ کہتے ہیں۔ اس لئے ان کے بچوں کےنسب پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ ( الفتاوى الكبرى لابن تيمية:3/ 325)
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ