سوال
میاں بيوی کے درمیان گھریلو مسئلے پر الگ ہونے کا فیصلہ ہوا۔لیکن میاں نے بیوی کو طلاق نہیں دی ۔بیوی نے عدالت کے ذریعے خلع لیا ہے۔شوہر اِس فیصلے پر راضی نہیں تھا۔ لیکِن بیوی کے مجبور کرنے پر اِس فیصلے پر مجبوراً حامی بھرنی پڑی۔اس مسئلے کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔اوراب بیوی اپنے اس فیصلے پر شرمندہ ہے اور واپس رابطہ رکھنا چاہتی ہے۔ شرعی لحاظ سے اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کی واپسی ہے یانہیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
- میاں بیوی دونوں اکٹھے نہ رہ سکتے ہوں، تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے کر خاتون کو علیحدہ کردے۔ اور اگر مرد طلاق نہ دینا چاہتا ہو، تو عورت خلع کا مطالبہ کرکے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
گویا علیحدگی کے لحاظ سے خلع بھی ایک قسم کی طلاق ہے، لیکن یہ اس معنی میں طلاق سے مختلف ہے، کہ ایک یا دو طلاق کے بعد دورانِ عدت تجدیدِ نکاح کے بغیر رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن خلع کے بعد صرف رجوع کافی نہیں، بلکہ تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔ [الاستذكار لابن عبد البر:6/82]
لہذا صورتِ مسؤلہ میں تمام شرائط و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے، نئے سرے سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔
- ہماری گزارش یہ بھی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اور اقدام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ اور غور و فکر کرلینا چاہیے، تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نکاح ایک عظیم بندھن ہے، یہ کوئی مذاق نہیں کہ جب جی چاہا، نکاح کرلیا، طلا ق دے دی، یا خلع لے لیا، اور رجوع کرلیا۔ اللہ تعالی آپ لوگوں کو سلوک و اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نماز ،اذکار کی پابندی کریں، اور صدقات و خیرات کا اہتمام کریں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ