سوال

کیا ایک شخص اپنی زندگی میں پوری جائداد کسی کو ہبہ کرسکتا ہے؟ دلیل کی روشنی میں فتویٰ عنایت فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

انسان اپنی زندگی میں ساری  کی ساری  جائیدادہبہ نہیں کر سکتا، جس کے دلیل حسبِ ذیل ہے:

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کی موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں، اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں بنتا، تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ جس پرآپ ﷺنے فرمایا : نہیں، میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اور مزید فرمایا:

« الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ». [ صحیح مسلم:1628]

”  البتہ ایک تہائی  صدقہ کر دو، اور ایک تہائی بہت ہے، بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔”

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ايك تہائی سے زیادہ مال کسی کو  وصیت یا ہبہ نہیں کرسکتا۔ لہذا سارا مال تو بالاولی نہیں کیا جاسکتا۔

بعض لوگ اپنا سارا مال زندگی میں اپنی اولاد کو دے دیتے ہیں، یعنی جو چیز بعد میں بطور وراثت تقسیم ہونا ہوتی ہے، اسے اپنی زندگی میں ہی تقسیم کردیتے ہیں۔ اس میں بھی کئی ایک قباحتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، جبکہ یہ لوگ مرنے سے پہلے خود ہی تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب والدین اپنا سارا مال تقسیم کردیتے ہیں، پھر انہیں مشکلات پیش آتی ہیں، اور کئی ایک لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ خالی ہاتھ ہونے کے صدمے سے ہی بیمار ہو کر ، موت کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں۔

لہذا  اس مسئلہ کے بارے ہمارا موقف یہ ہے، کہ کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو پوری جائیداد ہدیہ، گفٹ، یا بطور تحفہ نہیں دے سکتا۔ اگر تحفہ دینا ہے توجتنا معاشرے میں معروف ہے اتنا دیاجاسکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ