کیا اھل حدیث ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں؟

مجھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے محبت ورثہ میں ملی ہے بقول ابی جی رحمہ اللہ قلم و تلوار سے بیک وقت جھاد کیا بالخصوص عقائد پر یونانی افکار کی یلغار کا جس طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
بہرحال اھل حدیث علماء کا کہنا ہے کہ منھج سلف اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نظریات میں کوئی حقیقی اختلاف ہی نہیں ہے۔ شیخ الاسلام کی عظمت اس لیے بیان کی جاتی ہے کہ کہ وہ منہج حق پر گامزن تھے اور کتاب و سنت کے ہر مخالف کے مقابلے میں اس منہج کا پرچم بلند کرتے رہے۔ نیز، انہوں نے اپنے علم و عقل کی پوری قوت کے ساتھ اس منہج کا دفاع کیا، یہاں تک کہ وہ تاریخ میں منھج سلف اور اس کی وضاحت کے حوالے سے ایک نمایاں علامت بن گئے۔ کسی بھی غیر جانبدار قاری کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ عقائد کی تحقیق میں ان کو نظر انداز کرے یا ان کی آراء کو مکمل طور پر فراموش کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص منھج سلف سے دلچسپی رکھتا ہو اور ان کے راستے پر چلنا چاہتا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے؟
شیخ الاسلام اور ان کے علمی مکتب کی عظمت اور ان کے علمی ورثے کا اہتمام برائے منھج سلف کیا گیا نہ کہ انکے ذاتی نظریات کی پیروی کے لیے یا ان معاملات میں ان کی تقلید کے لیے جن میں وہ سلف کے متفقہ موقف سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اکثر مخالفین یہ دعوی کرتے ہیں:
اکثر اھل حدیث شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پیروکار ہیں نہ کہ منھج سلف کے۔
اس مزعومہ دعوے کا جواب ہم اس طرح دے سکتے ہیں کہ:
اولاً: یہ بات تمام مکاتبِ فکر میں معلوم ہے کہ کسی خاص روایت کو کسی مخصوص مذہب کے اندر اختیار کرنا اور اسے موضوعی وجوہات کی بنا پر اپنانا کسی مذہب کو کسی ایک شخص تک محدود کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک انتخاب ہوتا ہے اور یہ معاملہ تمام فقہی اور عقائدی مکاتب میں پایا جاتا ہے۔
ثانیاً: تعلیم و تعلم میں تحقیقی مزاج کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو شخص کسی مخصوص علم کو پوری امت پر عام کرنا چاہے، وہ اسے تمام شخصیات، تمام کتب، یا تمام مسائل کے ذریعے عام نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے لیے اہم مسائل اور ایسی کتب کافی ہوتی ہیں جو اختصار، وضاحت، اور دقت کے معیار پر پوری اتریں؛ چاہے وہ متون کی صورت میں ہوں یا شروح کی۔ یہ اصول تمام مکاتب فکر پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ عقائدی ہوں یا فقہی۔ ہر مکتب فکر کی مختصر اور مستند کتب ہوتی ہیں، جنہیں تعلیم و تدریس اور مستند علم کے لیے حوالہ بنایا جاتا ہے۔
اسی اصول کے تحت شیخ الاسلام کی بعض کتب کا انتخاب کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ کسی فکر کے مضمون کو درست اور واضح انداز میں بیان کرتی ہیں اور منہج سے انحراف نہیں کرتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان مستند کتب کے بعض الفاظ یا بیانات پر استدراک (تنقیدی جائزہ) نہ کیا جا سکتا ہو، یا مؤلف کی بعض باتوں پر نظر ثانی نہ کی جا سکے۔ تاہم، استدراک اور نظر ثانی کتاب کی اہمیت یا مؤلف کی ساکھ کو ختم نہیں کرتے۔
ثالثاً: اگر ہم کسی گروہ کو کسی شخص کی طرف منسوب کریں اور ان سے منہج کی نفی کریں، تو اس کے لیے چند امور کی تصدیق ضروری ہے، جن میں شامل ہیں:
1) اس شخص کی ان باتوں کی پیروی، جو منہج کے (ظاہری و حقیقی) خلاف ہوں، اور ان کے اپنانے کا التزام پایا جاتا ہو یہ امر اھل حدیث حضرات میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو کجا کسی صحابی کے حوالے سےنہیں پایا جاتا
2) اس کی انفرادی آراء کی پیروی جو اہلِ مکتب میں سے کسی اور کے پاس نہ ہوں، بغیر دلیل پر غور کیے یا اس کا لحاظ رکھے۔ یہ امر بھی اھل حدیث حضرات کے پاس نہیں پایا جاتا۔
3) اس شخص کی منہجی مخالفت کا مطالعہ اور اس مخالفت کی شدت کا تعین: کیا یہ ایسی مخالفت ہے جو قابل قبول ہو، یا ایسی ہے جو شاذ اور ناقابل قبول ہو؟ نیز، اس مخالفت کو گروہ کی جانب سے اپنانے کی صورت کیا ہے: کیا یہ ایک عمومی رجحان بن چکا ہے یا صرف چند افراد کی حد تک محدود ہے؟
جب ہم معاصر اھل حدیث یا سلفیت کو ان علمی معیارات پر پرکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی کتب اور ان کے علمی ورثے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے علم اور تحقیق کو صرف انہی تک محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے فقہی اور حدیثی ائمہ کی کتب کے ساتھ ساتھ عقیدہ پر مشتمل ان مستقل کتب کا بھی اہتمام کیا ہے جو مسند ہیں، جیسے: “التوحید” از ابن خزیمہ، “الشریعہ” از آجری، “أصول اعتقاد أهل السنة” از لالکائی، “السنة” از امام احمد، اور خلاّل و مروزی کی کتب، نیز ابن مندہ کی “الإيمان والتوحيد” اور دیگر کتب۔ ان کتب کو نہ صرف نقل کیا بلکہ شائع کیا اور ان کا خصوصی اہتمام بھی کیا۔
جہاں تک عام طور پر زیرِ مطالعہ عقائدی متون کا تعلق ہے، تو “العقيدة الواسطية” اپنی اہمیت اور قدر و قیمت کے باوجود انہیں “العقيدة الطحاوية” اور اس پر ابن ابی العز الحنفی کی شرح، “اللمعة” از ابن قدامہ، اور “تجريد التوحيد” از مقریزی سے غافل نہیں کر سکی۔
جب عقائد کے ان مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان میں ایسا قول اختیار کیا جو اہلِ سنت کے مشہور موقف کے خلاف ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اھل حدیث حضرات نے نہ تو ان اقوال کو اپنایا ہے اور نہ ہی انہیں بلا چوں و چرا قبول کیا ہے۔ بلکہ آپ کو ان کے ہاں یا تو ان اقوال کے خلاف انتخاب ملے گا یا پھر ان کے بارے میں وضاحت، عذر اور انکار۔
مثال کے طور پر نارِ جہنم کے فنا ہونے کے مسئلے کو لیجیے۔ آپ سلفیوں کو نہیں پائیں گے کہ وہ سب اس قول کو اپناتے ہوں یا اس پر ایمان رکھتے ہوں محض اس بنیاد پر کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا ہے یا ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابن باز رحمہ اللہ نے جب اس قول کو ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کی طرف منسوب کیا، تو واضح کیا کہ یہ قول مرجوح (غیر مضبوط) ہے اور درست نہیں۔
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“یہ بعض سلف کا قول ہے، جو بعض صحابہ سے بھی منقول ہے۔ اسے ابن قیم نے ذکر کیا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا، اور دیگر نے بھی، لیکن یہ اہلِ سنت کے نزدیک مرجوح (ضعیف) قول ہے۔ یہ کمزور قول ہے۔ صحیح موقف وہی ہے جس پر اہلِ سنت والجماعت کی اکثریت قائم ہے، یعنی جہنم ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی، اور اس کے اہل بھی ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ} (فاطر: 36)

اور فرمایا:

{يُرِيدُونَ أَن يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ} (المائدة: 37)،

لہٰذا اھل حدیث کا موقف، سوائے کچھ نادر و قلیل آراء کے، یہ ہے کہ جہنم کا عذاب دائمی ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ہمیشہ باقی رہے گی۔”
مزید برآں، ابن قیم رحمہ اللہ نے خود بھی اس موقف کی طرف رجوع کیا اور اپنی کتاب “الوابل الصيب” میں وضاحت کی کہ جہنم ہمیشہ باقی رہے گی، اور اس میں سے صرف اہلِ توحید نکلیں گے۔
جہاں تک ان فقہی مسائل کا تعلق ہے جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جمہور سے اختلاف کیا، تو اھل حدیث حضرات اپنی استدلالی روش رکھتے ہیں جو نہ تو شیخ الاسلام کی موافقت پر مبنی ہے اور نہ مخالفت پر۔ ان کے لیے اصل اہمیت روایت کے ثبوت اور ائمہ کی تصریحات کے عملی تائید پر ہے۔
اگر معاصر سلفی عالم، محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کو دیکھا جائے تو وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اقوال یا اختیارات کو محض ان کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے، بلکہ دلیل کی جانچ اور استدلال پر نظر کے بعد فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے کئی مسائل میں شیخ الاسلام سے اختلاف کیا۔ اس پر ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے: “المسائل التي خالف فيها ابن عثيمين شيخ الإسلام ابن تيمية.. دراسة تحليلية فقهية مقارنة”۔
اس کتاب میں مصنف نے مختلف ابواب میں ان مسائل کو ترتیب وار درج کیا ہے، جن میں علامہ ابن عثیمین نے شیخ الاسلام کے اختیارات سے اختلاف کیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اھل حدیث حضرات منہج کی پیروی کرتے ہیں، نہ کہ کسی ایک شخص کی۔ تاہم دلیل کی بنیاد پر یا اجتہادی موارد کے تنافی کی وجہ سے شیخ الاسلام سے اختلاف ان کی قدر و منزلت کم نہیں کرتا اور نہ ان کی عظمت کو ختم کرتا ہے۔
آخر میں اختصار کے ساتھ یہ عرض کر دوں کہ یہ معاملہ دو رُخ رکھتا ہے۔ جو احباب احل حدیثوں پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب پر انحصار کرتے ہیں، کیا وہ خود کسی خاص شخص کے افکار پر تنقید کر سکتے ہیں جسے وہ اپنا قدوۃ بنا چکے ہیں۔

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: کلمہ طیبہ کے دو اجزاء ہیں