سوال
میں نے کسی کی ضمانت دی تھی اور اب وہ قرضہ واپس نہیں کر رہا، کیا شریعت کی رو سے مجھے اس کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
آپ مقروض کے قرض کی ذمہ داری لے کر اسکے ضامن بنے ہیں، اگر مقروض قرض خواہ کو قرض واپس نہ کرے تو قرض کی ذمہ داری ضامن کو اٹھانی پڑتی ہے، ورنہ تو ضمانت کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا!
اس لیے اگر مقروض قرضہ نہیں دے رہا تو یہ آپ کے ذمے ہے، آپ مقروض سے لے کر قرض واپس کریں یا پھر اپنی طرف سے ادا کریں۔
ہاں اگر آپ اپنے پاس سے قرضہ واپس نہیں کر سکتے تو آپ قرض کے لیے زکوۃ لے سکتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
“اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ”. [التوبة: 60]
’’صدقات (زکوۃ) تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘‘۔
تاوان بھرنے والے کو زکوۃ دی جاسکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اسکا باقاعدہ مصارف زکوۃ میں ذکر فرمایا ہے۔
اسی طرح یہ شخص ان تین افراد میں شامل ہے جن کے لیے سوال کرنا جائز ہوجاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ”. [صحیح مسلم: 1044]
’’اے قبیصہ ! تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لیے سوال کرنا جائز نہیں: ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی، اس کے لیے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کر لے، اس کے بعد ( سوال سے ) رک جائے‘‘۔
لہذا آپ نے چونکہ مقروض کے قرض کی ذمہ داری لی تھی، اس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ آپ قرض خواہ کا قرضہ مقروض سے لے کر واپس کریں، اگر وہ نہیں دیتا تو پھر آپ کے پاس استطاعت ہے تو آپ قرضہ خود چکائیں، لیکن اگر آپ کے پاس استطاعت نہیں کہ آپ اپنی طرف سے قرض ادا کریں تو پھر آپ زکوۃ یا فنڈ وصول کرکے اس کا قرضہ ادا کریں۔
یاد رکھیں مقروض کے انکار کرنے سے وہ قرض کی ادائیگی سے بری الذمہ نہیں ہو جائے گا، بلکہ قرض خواہ ضامن اور مقروض دونوں میں سے جس سے چاہے اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر ضامن اپنی طرف سے قرض واپس ادا کر دیتا ہے تو پھر مکفول ( جس کی ضمانت دی گئی ہے) اس کا مقروض بن جائے گا اور ضامن جب چاہے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ