سوال

والدہ نے زبانی کلامی وراثت میں اپنا حصہ بھائیوں کو دے دیا،کیا شرعا والدہ کی وفات کے بعد ننھیال سے اولاد والدہ کے اس حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • شرعا تو ⅓ سے زیادہ ہبہ یا وصیت نہیں کرسکتی، وہ بھی خاوند کی اجازت سےپھر اگر اس نے سارا مال ہبہ یا وصیت کر دیا ،تو بھی ⅓ کے سوا باقی واپس ہوگا، اور میراث جاری ہوگی۔ اور ورثا اپنے حصو ں کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا “. [ابوداؤد:3547]

کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں ہے ۔

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَحْيَى رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ جَدَّتَهُ خَيْرَةَ امْرَأَةَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحُلِيٍّ لَهَا، فَقَالَتْ : إِنِّي تَصَدَّقْتُ بِهَذَا. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ فِي مَالِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، فَهَلِ اسْتَأْذَنْتِ كَعْبًا ؟ ” قَالَتْ : نَعَمْ. فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ:” هَلْ أَذِنْتَ لِخَيْرَةَ أَنْ تَتَصَدَّقَ بِحُلِيِّهَا ؟ ” فَقَالَ : نَعَمْ. فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا.[ابن ماجہ :2389:صحيح]

کعب بن مالک کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:  شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے ؟ وہ بولیں: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا، کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ بولے: جی ہاں، تب جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کیا۔

  • ہمارے ہاں یہ رویہ بھی عام ہے، کہ بعض ورثا کو ایموشنل بلیک میل کرکے، انہیں اپنا حصہ نہ لینے، یا کسی کو دینے پر راضی کرلیا جاتا ہے، اور بالخصوص خواتین یعنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے، جو کہ ظلم  ہے، اور کسی طور درست نہیں۔
  • ایک اور غلط رویہ بھی معاشرے میں رائج ہے کہ بعض دفعہ بہن یا بیٹی کے سسرال والے اسے مجبور ( یا  ایموشنل بلیک میل)  کرتے ہیں کہ وہ اپنی وراثت سے حصہ کیوں نہیں لے کر آتی؟ ہمارے خیال میں اگر کوئی   مرد یا عورت وارث واقعتا راضی خوشی اپنا  حصہ کسی کو دے دے، تو اس کے سسرال کا یا اس کے خاوند یا اولاد کا اسے حصہ مانگنے پر مجبور کرنا بھی درست رویہ نہیں ہے۔

هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ