سوال

میں ایک وفاقی ادارے میں بطور افسر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہوں۔ ہمارے محکمے کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ جو اسلام آباد نیو ائیر پورٹ کے قریب واقع ہے۔ ہمارے محکمے کے سارے ارکان اس سوسائٹی کے ممبرز بھی ہیں ۔ وہ سوسائٹی ہردو سال یا تین سال کے بعد ایک پراجیکٹ لانچ کرتی ہے۔ سوسائٹی کی انتظامیہ پلاٹ اور فلیٹ آفر کرتی ہے۔ جو کہ ممبران میں کھلی آفر ہوتی ہے ،کہ وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق کون سا پلاٹ لیں۔یہ آفر آفیسر اور آفیشل دونوں کے لئے یکساں ہے۔چاہے وہ ایک کنال کا پلاٹ بک کروا لے، دس مرلے، سات یا پانچ مرلے کا ۔ سوسائٹی کے ممبرز کو اس پلاٹ کی ڈاؤن پے منٹ کرنی ہے، جو پلاٹ وہ بک کروانا چاہتے ہوں۔باقی پیسے آسان اقساط میں جمع کروانا ہوتے ہیں ۔ یہ پلاٹ ہمیں اس جگہ ملتے ہیں جہاں کوئی نیا پراجیکٹ لانچ ہوتا ہے۔ لیکن پلاٹ کہاں پہ ہو گا۔ اس کا تعین جب قرعہ اندازی ہو گی تب ہوگا، کہ آیا یہ پلاٹ فرنٹ پہ ہے، کارنر پلاٹ ہے، درمیان والا ہے۔یہاں تک کہ ملازم اس پلاٹ کی فائل کو جب چاہے بہترین منافع پر بیچ بھی سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سوسائٹی اپنے سارے ممبرز کو یہ آفر کرتی ہے۔اس میں ایسی کوئی تخصیص یا تفریق نہیں ہے ، کہ ایک کو ملے، اور باقی لوگ اس سے محروم رہیں۔ تو شیخ محترم سوال یہ ہے کہ اب کیا اس طرح کی خریداری اور اس کا فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

 جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سوسائٹیوں میں بہت سے فراڈ اور دھوکے ہوتے ہیں۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے پلاٹ کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔جس سے اس کی قیمت میں کافی فرق ہوتا ہے۔کوئی بزنس پلاٹ، کوئی کارنر پلاٹ ،کوئی مسجد کے سامنے اور کوئی پارک کےسامنے ہوتے ہیں ۔  اس لیے  اس میں کافی غرر یعنی دھوکے  کے امکانات ہوسکتے ہیں۔

ہمارے رجحان کے مطابق چند شرائط ہیں، اگر وہ  پائی جائیں تو ایسی سوسائٹی میں قرعہ اندازی کے ذریعہ پلاٹ لینا جائز ہے،  ورنہ نہیں۔ شرائط درج ذیل ہیں:

1.سوسائٹی کی جگہ موجود ہو، صرف کاغذی کارروائی نہ ہو۔

2.سوسائٹی کا باقاعدہ نقشہ بنا ہوا ہو، محلِ وقوع کے اعتبار سے تمام پلاٹوں کی نشاندہی ہو۔

3.پلاٹ کی اقسام کے اعتبار سے قیمتوں کا بھی تعین کیا گیا ہو۔

4.ترقیاتی فنڈ فی مرلہ کے اعتبار سے بتا دیے جائیں۔

5.ہاوسنگ سوسائٹی کا نقشہ بقاعدہ طور پر مجازادارے سے منظور اور پاس شدہ ہو، تاکہ بعد میں کوئی قانونی پیچیدگی اور پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

6.اسکیم میں جتنے پلاٹس ہوں اتنی ہی درخواستیں وصول کی جائیں۔ایسا نہ کیا جائے کہ پلاٹس تو 200 ہوں، اور درخواست ہزاروں کے اعتبار سے وصول کرلی جائیں۔کیونکہ پیپر ورکنگ کی فیس ناقابل واپسی ہوتی ہے، جو مالکان کو دی جاتی ہے۔اسی طرح ہی درخواست کی فیس الگ ہوتی ہے جو ناقابل واپسی ہوتی ہے،اور یہ غلط طریقہ اختیار کرنے سے کسٹمر /گاہک کو نقصان ہوتا ہے۔

7.ہر فائل کے ساتھ نقشہ منسلک ہو۔جس کے نام پر فائل ہو وہ آگے فروخت کرنے کا مجاز نہ ہو۔کیونکہ اس فائل کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ،جو قابل فروخت ہو۔ کیونکہ ہم یہ بیع  سلم پر قیاس کر کے جائز قرار دیتے ہیں۔ اور اس میں  وصولی سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں۔

8.قرعہ اندازی کا وقت مقرر ہو۔اس میں جتنے ممبران شامل ہوں ان کو پلاٹ ملنے کی ضمانت ہو۔

9.قرعہ اندازی پلاٹ کے تعین کی ہو گی، یہ ناہوکہ کس کو پلاٹ ملنا ہے کس کو نہیں ملنا۔

10.جو قیمت وصول کی جائے وہ اصل قیمت سے منہا کر کے باقی کی اقساط بنائی جائیں۔اور اقساط کی ادائیگی کی تاریخ بھی مقرر کر لی جائے۔

اگر یہ شرائط پائی جائیں، تو  پھر ایسی خریداری کرنا جائز ہے، ورنہ نہیں۔ اور جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ جب تک پلاٹ مل نہ جائے، صرف فائل کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

 

 

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ