سوال (1607)
کسی ضرورت اور حاجت کے لیے دعا کرنی ہو تو اس کے لیے دو نوافل کی بات کی جاتی ہے، کیا دو پڑھنا کافی ہے یا زیادہ پڑھے جائیں گے؟ اور کیا ایک بار نماز پڑھ کر زیادہ دعائیں کی جا سکتی ہیں؟
جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا:
“كان إذا حزبه أمر فزع إلى الصلاة”. [سنن أبي داود: 1319]
’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا آپ فورا نماز کی طرف رجوع کرتے’۔
یہاں پر نماز کی رکعات کی متعین تعداد بیان نہیں کی گئی۔ نماز میں نوافل کم از کم دو ہوتے ہیں، زیادہ جتنے مرضی پڑھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی وقت میں زیادہ دعائیں بھی مانگی جا سکتی ہیں، یہ بھی جائز ہے۔
مسائل کے حل کے لیے دعا کا خصوصی اہتمام کیا جائے، جب بھی جو مسئلہ یا زیادہ مسئلے پیش آئیں، ان کے لیے دعا کر لی جائے۔ الگ الگ دعا کرنا یا الگ الگ نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
نمازِ حاجت سے متعلق بعض خاص روایات بھی ہیں، جیسا کہ درج ذیل روایت ہے:
(مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لِيَقُلْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ ، وَالسَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ ، أَسْأَلُكَ أَلا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلا غَفَرْتَهُ ، وَلا هَمًّا إِلا فَرَّجْتَهُ ، وَلا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلا قَضَيْتَهَا لِي ، ثُمَّ يَسْأَلُ اللَّهَ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ مَا شَاءَ فَإِنَّهُ يُقَدَّرُ) [ابن ماجة]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ البتہ عمومی دلائل سے یہ مسئلہ ثابت ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو نماز پڑہ کر دعا کرنا مسنون عمل ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ