سوال (230)

“أنما يعذر الوليد ولا يعذر من كان في الزمان عتيا”
اس عربی شعر کا ترجمہ درکار ہے ؟

جواب:

عذر تو کم عمر کا قبول کیا جاتا ہے اور جو زمانے میں عمر کی انتہاء کو پہنچ جائے اسکا عذر قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

اس شعر کا سیدھا سیدھا ترجمہ تو وہی ہے، جو اوپر فہد انصاری صاحب نے ذکر کر دیا ہے، میں اسے اپنے الفاظ میں ذکر کروں گا :بچے کو (اس کے عادات و اطوار میں نا سمجھ جان کر) معذور قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن اس بڈھے کا کوئی عذر قابل قبول نہیں، جو (زندگی کی خاک چھان کر) بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوا ہے۔
الا یہ کہ اس میں لفظ “الولید” وغیرہ سے کسی خاص طرف تلمیح یا اشارہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ اس کا معنی ذرا مختلف ہو۔
اصل میں یہ ایک مشہور اموی اور عباسی شاعر إبراهيم بن علي بن سلمة بن عامر بن هرمة الكناني القرشي کے قصیدے کا ایک شعر ہے۔
إبراهيم بن هرمة کا دیوان بھی مطبوع ہے، جس میں یہ قصیدہ موجود ہے، جس کا مطلع یوں ہے:

عاتِبِ النَفسَ وَالفُؤادَ الغَويّا ۔۔۔۔۔۔ في طِلابِ الصَبا فَلَستَ صَبيّا

اور آخر کے دو شعر اس طرح ہیں:

عَجَبَت جارَتي لِشَيبٍ عَلاني۔۔۔۔۔۔ عَمرَكِ اللَهُ هَل رَأَيتِ بَديّا
إِنَّما يُعذَرُ الوَليدُ وَلا يع ۔۔۔۔۔۔ ذَرُ مَن عاشَ في الزَمان عِتِيّا

جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ایک شخصیت گزری ہے، جس کا نام عبد اللہ بن معاویۃ تھا۔ یہ قصیدہ اس سے متعلق ہے۔
مدج سرائی کرنے والے شاعر اور ممدوح دونوں ہی قریشی تھے، لیکن دونوں کی دینی حالت پتلی تھی، بلکہ ابن معاویۃ کے متعلق ابو الفرج الاصبہانی نے لکھا ہے:

«وكان عبد الله بن معاوية جوادا فارسا شاعرا، ولكنه كان سيئ السيرة، رديء المذهب، قتالا، مستظهرا ببطانة السوء ومن يرمى بالزندقة، ولولا أن يظن أن خبره لم يقع علينا لما ذكرناه مع من ذكرناه». [مقاتل الطالبيين ص152]

’یعنی اس شخص میں سخاوت، فروسیت اور شاعرانہ صلاحیتیں تھیں لیکن سیرت و کردار اور عقائد و نظریات انتہائی ردی تھے، مار دھاڑ پسندیدہ مشغلہ اور لچ لفنگ زندیق لوگوں سے فخریہ رفاقت رکھتا تھا…
اسے بعد میں ابو مسلم الخولانی نے قتل کردیا تھا۔
صاحب قصیدہ ابن ہرمۃ سے متعلق حافظ ذہبی فرماتے ہیں:

شَاعِرُ زَمَانِهِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ عَلِيِّ بنِ سَلَمَةَ بنِ عَامِرٍ الفِهْرِيُّ، المَدَنِيُّ.
أَحَدُ البُلغَاءِ، مِنْ شُعَرَاءِ الدَّوْلَتَيْنِ، وَكَانَ مُنْقَطِعاً إِلَى العَلَوِيَّةِ.
قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: هُوَ مُقَدَّمٌ فِي شُعَرَاءِ المُحْدَثِيْنَ. (سير أعلام النبلاء ط الرسالة (6/ 207)

زرکلی نقل کرتے ہیں:
قال الأصمعي:ختم الشعر بابن هرمة. وكان مولعا بالشراب جلده صاحب شرطة المدينة. (الأعلام للزركلي (1/ 50)
ان سب چیزوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو کہانی محمد بن زیاد الیشکری وغیرہ نے نافع بن الازرق اور ابن عباس کے حوالے سے بنائی ہے، وہ درست نہیں ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ صحابی رسول اپنے بعد آنے والے شعراء اور ان کے قصیدوں سے استشہاد کریں؟
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس تفسیری روایت کو ’المستدرک’ میں ذکر کر دیا، جس پر حافظ ذہبی تبصرہ فرماتے ہیں:

«قال أحمد بن حنبل: محمد بن زياد اليشكري الطحان كذاب خبيث يضع الحديث وابن شجاع من ضعفاء المراوزة». [مختصر تلخيص الذهبي لمستدرك الحاكم 2/ 849]

امام احمد كی جرح العلل للمروذی وغیرہ بھی ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

«وَلَمْ يَتَكَلَّمْ عَلَيْهِ، وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ جِدًّا». [إتحاف المهرة 8/ 103]

حاکم نے بلا کسی تعقب و تعلیق خاموشی سے اسے ذکر کردیا ہے، حالانکہ یہ سخت ضعیف سند ہے۔
وجہ اس کی یہی محمد بن زیاد راوی ہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین نے اس کی تکذیب کی ہے۔

«‌محمد ‌ابن ‌زياد ‌اليشكري الطحان الأعور الفأفاء [الفأفأ] الميموني الرقي ثم الكوفي كذبوه من السابعة ت». [تقريب التهذيب ص479]

نافع بن الازرق کے ابن عباس سے تفسیری سوالات سے متعلق قدرے تفصیلی گفتگو اہل علم نے فرمائی ہے، جسے بعد میں کسی وقت بیان کیا جاسکتا ہے. ان شاءاللہ.

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ