تعلیم و تربیت: بدلتے دور میں ایک ناگزیر فن

اس پرفتن دور میں کیا واقعی ہمارے لیے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے؟
کیا نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کی تربیت اب ہمارے اختیار سے باہر ہوچکی ہے؟
کیا والدین کو سمجھنا، ان کی نفسیات جاننا اور ان کا ساتھ دینا پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے؟

یہ سوالات محض شکوہ نہیں، بلکہ ایک “حقیقت کی نشاندہی” ہیں۔

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ دنیا جس میں ہم نے آنکھ کھولی تھی، اب ویسی نہیں رہی۔ خرید و فروخت کے طریقے بدل چکے ہیں، کھیل کے میدان اسکرینوں میں منتقل ہوچکے ہیں، کہانیوں کی جگہ آن لائن گیمز نے لے لی ہے، اور تربیت و تبلیغ کے روایتی ذرائع کی جگہ یوٹیوب اور سوشل میڈیا نے سنبھال لی ہے۔
ایسی دنیا میں ہم یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ *وہی پرانے طریقے، وہی پرانی گفتگو، وہی اندازِ تربیت* آج کے بچوں پر بھی ویسا ہی اثر ڈالیں گے؟
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا بدل گئی—
اصل مسئلہ یہ ہے کہ “ہم نے خود کو بدلا نہیں۔”
ہم نے یہ سمجھ لیا کہ سہولتیں بڑھ جائیں تو سکون خود بخود آجائے گا، زندگی خوشیوں میں بدل جائے گی۔ مگر ہم یہ بھول گئے کہ سہولتیں تو وقت بچاتی ہیں، “دل جوڑنا، سوچ سمجھنا اور کردار بنانا پھر بھی سیکھنا پڑتا ہے۔”

آج کا بچہ پہلے سے زیادہ حساس ہے، زیادہ باخبر ہے، زیادہ سوال پوچھتا ہے—مگر افسوس کہ ہم اب بھی اسے صرف فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں، سمجھدار نہیں۔
آج کا نوجوان بات ماننے سے پہلے بات “سمجھنا” چاہتا ہے، مگر ہم اب بھی اسے صرف “حکم” دینا جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیم و تربیت آج مشکل ہوگئی ہے۔
اگر استاد نئے زمانے کو نہ سمجھے تو کلاس بوجھ بن جاتی ہے۔
اگر والدین بچوں کی نفسیات نہ جانیں تو گھر میدانِ جنگ بن جاتا ہے۔
اور اگر قائد وقت کے تقاضے نہ پہچانے تو قوم سمت کھو دیتی ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟
حل یہ نہیں کہ ہم بچوں کو بدلنے کی کوشش کریں—
حل یہ ہے کہ ہم “تعلیم و تربیت کے فن کو سیکھیں۔”
تعلیم محض نصاب پڑھانے کا نام نہیں،
اور تربیت صرف روک ٹوک کرنے کا عمل نہیں۔
تعلیم بچے کی سوچ کھولنے کا نام ہے،
تربیت اس کی فطرت کو سمجھ کر راستہ دکھانے کا ہنر ہے۔
یہ ایک “فن” ہے—جو سیکھا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ نکھارا جاتا ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس تیز رفتار دنیا میں گم نہ ہوں،
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر سکون کا مرکز ہوں،
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں صرف کامیاب نہیں بلکہ “متوازن اور بااخلاق” ہوں
تو ہمیں ماننا ہوگا کہ
“تعلیم و تربیت کے فن کو سیکھنا اب اختیار نہیں، ضرورت بن چکا ہے۔
اس پرفتن دور میں جبکہ سکرین interest killer ہے ۔۔اس کی وجہ سے لوگوں کے اکثریت اپنے فرائض سے غافل ہوتی جارہی ہے ۔۔۔
ہمیں تعلیم وتربیت کے فنون کو سمجھنا سیکھنا ہے اور یہ کیسے آئے گا فن ؟؟
افلا يتدبرون القرآن أم على قلوب اقفالها
دلوں کے زنگ دلوں کے تالے کھولنے کا ذریعہ تدبر ہے پلاننگ ہے محاسبہ کرنا ہے یہ کب ہوتا ہے فراغت میں ۔۔۔۔تبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نعمت کو مغبوب کہا ۔۔۔یہ صحت اور فراغت مغبوب نعمت جو ہے سکرین بدلتا ہوا دور ہم سے چھین رہا ہے ۔۔ہمارے پاس ایک ذریعہ ہے جو دلوں کے تالے کھولتا ہے ہمیں یہ سکرین کے حوالے نہیں کرنا ۔۔
ہم نے اس فن کو باذن اللہ سیکھنا ہے کہ اس انٹرنیٹ دجالی سکرین جو کہ شوق کا قاتل ہے ۔۔اس کا متبادل ہم کیا تیار کرسکتے ہیں
سکرین کے فوائد ہیں مگر بچوں کے لیے خطرناک ہے ۔۔بڑوں کے شوق کو ختم کرتا ہے بچوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی
ہم بچوں کو آسان اور منفرد اور دلچسپ طریقہ سے کیسے تعلیم وتربیت میں ان کے مددگار ہوسکتے ہیں ؟؟ رب سے دعا مانگتے ہیں ۔۔مشغولیت کی بیڑیوں سے نکل کر محاسبہ کرتے ہیں اور اصلاح کرتے ہیں
اللّٰہ ہمیں شرح صدر عطا فرمائے
🖋️عطیہ محمدی