فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
کل رات سے یہ آیت دل و دماغ میں گردش کر رہی ہے پھر رات کسی پہر آنکھ کھلی تو ابی جی رحمہ اللہ سے ایک گفتگو یاد آ گئی
میں ابی جی رحمہ اللہ کو بہت تنگ کیا کرتا تھا
لا یعنی فضول بے تکے سوالات ہی سوالات، بعض سوالات تو مجھے یقین ہے کہ کسی اور سے کیے ہوتے تو ۔۔۔۔
لیکن قربان جاوں کبھی بھی نہیں کبھی بھی میرے فلسفیانہ لا یعنی فضول قسم کے سوالات سے تنگ نہیں آئے
ایسے ہی ان سے پوچھا تھا جب میں آزمائشوں میں تھا جی ہاں صرف آزمائش ہی نہیں بلکہ آزمائشوں کی لپیٹ میں تھا
تقریبا آٹھ سال ہو گئے تھے
نماز روزہ محض ایک رسمی کاروائی کی حدود میں داخل ہونے کو تھا
دعا مانگنے کے لیے بس ایسے ہی ہاتھ اٹھاتا تھا اور بعد میں ہاتھ اٹھانا بھی چھوڑ دیا تھا پھر کچھ عرصہ بعد دعا کے رسمی کلمات بھی ختم ہو گئے بس دل ہی دل میں کبھی کچھ تو کبھی کچھ
قرآن کی تلاوت تو شاید مہینوں میں کرتا تھا
اور ابی جی رحمہ اللہ سے بحث برائے بحث کرتا تھا
اور وہ مجھے دیکھتے رہتے تھے صرف ایک مرتبہ ایک جملہ کہا تھا
تم میری ساری اولاد میں سے میرے آئیڈیل ہو کیونکہ تم میرے باپ کی دعا کی قبولیت ہو میں نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے تمہاری آزمائش دن بدن طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور اب تمہارے سوالات سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے کیونکہ بعض سوالات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پتر جی!
تمہاری واپسی صرف تمہارے لیے نہیں بلکہ بہت ساروں کے لیے خیر ہو گی۔
بس پھر اللہ نے اپنے ایک بندے سے ملوا دیا اور سچ ہے میں اللہ کے اس بندے کے لیے بے شمار دعائیں کرتا ہوں کیوں کہ وہ بندہ خود اس وقت خطرناک آزمائشوں کی لپیٹ میں ہے۔
ارے میں کہاں نکل گیا بات مذکورہ بالا آیت پر کرنی تھی کہ
“ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے”
ابی جی رحمہ اللہ نے میرے سوالات اور آزمائشوں کی انتہا پر یہ آیت مجھے پڑھنے کو دی تھی اور کہا تھا اس آیت کو ہضم کرنے کی کوشش کرو۔
تو میں نے کہا سادہ سی آیت ہے کہ تنگی کے بعد آسانی ۔۔۔
کہنے لگے اونہوووووو ! تنگی کے بعد نہیں بلکہ تنگی کے ساتھ آسانی۔۔۔۔۔
میں نے کہا ایک ہی بات ہے کہنے لگے نہیں پتر جی زمین آسمان کا فرق ہے دونوں میں۔
اس وقت موبائل نام کی بلا ہوتی نہیں تھی کہا جاو اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کرو
مجھے اس آیت میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی لیکن صبح انہوں نے کہا پتر جی جاو جامعہ ابی بکر جاو وہاں کی لائبریری میں تفاسیر کھولو کوشش کرو سمجھنے کی۔
ابی جی رحمہ اللہ کہ کہنے پر شاہ فیصل کالونی سے گلشن جامعہ ابی بکر کی لائبریری پہنچ گیا اس آیت سے متعلقہ تفاسیر چار گھنٹوں میں پڑھ ڈالی اور دوپہر کو واپس گھر پہنچا ابی جی رحمہ اللہ نے پوچھا ہاں جی کیا سمجھ میں آئی جو کچھ میں سمجھا تھا وہ بتا دیا کہنے لگے ابھی سمجھ نہیں آئی پھر اس رات کو میں ابی جی رحمہ اللہ کے ساتھ دس بجے تا رات تین بجے تک بیٹھا تھا اور انہوں نے مجھے یہ آیت سمجھائی
مجھے الْعُسْرِ اور يُسْرًا دونوں کا مفہوم سمجھ آگیا
اس کے بعد سَيَجعَلُ اللَّهُ بَعدَ عُسرٍ يُسرًا کا مفہوم سمجھایا
اس دن سمجھ آئی کیسے آزمائش خیر کا سبب بنتی ہے
سارے لڑائی جھگڑے اللہ سے شکوے سب ختم ہو گئے
میں نے کہا کہ میں اتنے طویل عرصے سے اس کیفیت میں تھا آپ کس بات کا انتظار کر رہے تھے کہنے لگے کئی مرتبہ تمہیں اشارے دئے شاید تم سمجھ جاو لیکن محسوس ہوا کہ تمہیں مکمل وضاحت کرنا پڑے گی۔
کہنے لگے بیٹا جی الْعُسْرِ اور يُسْرًا دونوں ہی اللہ کا انعام ہیں کیونکہ ایک کے ساتھ صبر اور دوسرے سے شکر کی دولت ملتی ہے۔
کہنے لگے الْعُسْرِ محدود ہے اور يُسْرًا لا محدود ہے
آسانی ہر صورت میں آ کر رہے گی جتنی بڑی آزمائش اتنا بڑا انعام
پوچھنے لگے اللہ نے یہ کیوں کہا کہ تنگی کے ساتھ آسانی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تنگی ہے وہاں آسانی لازمی آ کر رہے گی
کہنے لگے “(العسر) دونوں آیات میں معرفہ ہے اس کا مطلب ہے ایک تنگی
(يُسرا) دونوں آیات میں نکرہ یعنی عموم ، آسانی بار بار اور تکرار کے ساتھ مسلسل ملے گی۔
تو کبھی بھی ایک تنگی دو آسانیوں پر حاوی نہیں ہو سکتی۔
مشیت الہی کا اپنا ہی قانون اور طریقہ ہے اس کا دینا اور لینا بعض اوقات ہماری سمجھ میں نہیں اتا اس نے کتنا آزمانا ہے کیسے آزمانا ہے کب تک آزمانا ہے یہ سب وہی جانتا ہے ہمارا کام صبر و شکر کے درمیان کا ہے۔
کبھی مال خود آزمائش بن جاتا ہے تو کبھی مال کا نہ ہونا آزمائش بن جاتا ہے
کبھی بیماری بلکہ طویل بیماری کسی خاص انعام کا سبب بن جاتی ہے۔
سچ فرمایا ﷺ کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح لوگوں کا پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا۔ اور روایت میں ہے کہ ہر شخص کا امتحان اس کے دین کے انداز سے ہوتا ہے اگر وہ دین میں مضبوط ہے امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے،
ایوب علیہ السلام تین سال، سات سال یا اٹھارہ سال اس آزمائش میں مبتلا رہے اور پھر
أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
اللہ بہت زیادہ تکلیف میں ہوں اور تو تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
ابی جی رحمہ اللہ نے اللہ پر میرا یقین بحال کروا دیا تھا اور تقریبا ڈھائی سال مسلسل دعا کے بعد میری آزمائش ختم ہونا شروع ہوئی تھی
شاہ فیض الابرار صدیقی