سوال

ہمارے گھروں میں عام طور پر بچے َکیرم بورڈ، لڈو اورجوسروغیرہ کھیلتے ہیں۔ کوئی شرط وغیرہ بھی نہیں لگاتے۔ کیاشرعی طوراس قسم کاکھیل جائز ہے؟ وضاحت فرمادیں۔ جزاک اللہ خیراکثیرا

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے متساہل واقع ہوئے ہیں۔اسی وجہ سے ہمارے گھروں میں بچے کیرم بورڈاور لڈو وغیرہ کھیلتے ہیں، اور ہم یہ چیزیں ان کو فراہم بھی کرتے ہیں، اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ، فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ»[مسلم:5896]

جس شخص نے چوسر کھیلا ،تو گویا اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے خون اور گو شت سے رنگ لیا ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے :‏‏‏

«مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ »[ابوداؤد:4938]

جس نے چوسر کھیلا ،اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔
نرد کا معنیٰ لکڑی کے تختے پر کھیلا جانے والا کھیل ہے۔اس سے چوسر، کیرم بورڈ اور لڈو وغیرہ جیسےکھیل مراد ہیں، جن کے کھیلنے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ (سنن ابی داود، مترجم ، دار السلام، حوالہ بالا)
 اس کھیل کو خنزیر سے تشبیہ دینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسا کہ خنزیر ایک ناپاک جانور ہے، اور کوئی مسلمان اسے چھونا بھی گوارا نہیں کرتا، چہ جائیکہ اس کا گوشت بنائے، یا اس کے خون میں اپنے ہاتھ رنگے، اسی طرح اسے اس قسم کی کھیلوں سےنفرت ہونی چاہئے۔
 اس قسم کے کھیلوں میں شرط بھی لگائی جاتی ہے کہ ہارنے والا جیتنے والے کو کوئی چیز یا رقم ادا کرے گا۔
جو کہ جوا ہے، اور حرام ہے۔
 اس کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اس میں مشغول ہو کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ حتی کہ نماز جیسے فرائض وواجبات کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بلکہ اگرجائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہو تو وہ بھی ناجائز ہو جائیں گی۔ قرآن کریم میں اللہ کے بندوں کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ وہ لغو اور فضولیات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ، اور بلا توجہ دیے گزر جاتے ہیں:

“وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا” [ سورۃ الفرقان: 72]

اگرچہ کچھ اہل علم نے بغیر شرط لگائے اس قسم کے بعض کھیلوں کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔ لیکن ہمارے نزدیک ان سے پرہیز ہی بہتر ہے، کیونکہ شروع میں اگرچہ احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ہے لیکن جب عادت پڑ جائے تو اس کا خیال رکھنا صرف مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔بہرحال ایسے کھیل جو وقت اور سرمایہ کے ضیاع کا باعث ہوں قطعا نا جائز ہیں۔
 کھیل کا اصل مقصد ذہنی راحت اور جسمانی ورزش ہوتا ہے۔ لہذا اگر کوئی کھیل صحت افزا ہے، یا جنگی مہارت میں معاون ہے، اور اس میں مذکورہ بالا قباحتیں نہیں ہیں ،جیسے دوڑ، گھڑ سواری،تیر اندازی اور اسلامی تقاضوں کے مطابق لباس پہن کرکشتی اور کبڈی وغیرہ کھیلنا ، تو یہ سب جائز ہیں ۔لیکن بیٹھ کر کھیلے جانے والے تمام کھیل جن میں وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ جائز اور درست نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے کھیل مسلمان کے شایان شان ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ