سوال

میری ایک دوست ہیں، ان کے دو گھر ہیں، ایک شہر کے اندر، دوسرا شہر سے ذرا باہر ہے، وہ بچوں کو لیکر شہر کے اندر رہتی تھیں، لیکن اب ان کے علاقے میں کرونا وغیرہ کی وجہ سے کافی اموات ہوئی ہیں، جس وجہ سے وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے، کیونکہ بچے وغیرہ گھر سے باہر جانے سے باز نہیں آتے، تو کیا ایسی صورت حال میں ہم اپنے دوسرے گھر منتقل ہوجائیں، اس میں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت تو نہیں، کیونکہ آپ نے وبا زدہ علاقے سے نکلنے سے منع فرمایا ہے. (بنت رفیق)

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

ارشاد باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ} [النساء: 71]

اے ایمان والو! احتیاطی تدابیر اختیار کرو.

قرآن کریم کی آیت اگرچہ جنگی حالات کے پس منظر میں نازل ہوئی، لیکن العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب کے تحت یہ حکم عام ہے، لہذا کوئی بھی کام کرتے ہوئے ممکنہ احتیاطی تدابیر اور وسائل اختیار کرنے چاہییں۔ بچوں پر کنٹرول کی خاطر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا بھی ایک احتیاطی تدبیر ہے، جسے اختیار کرنا چاہیے۔

اصولیوں نے حفظ نفس کو ضروریات دین میں ذکر کیا ہے، لہذا وہ تمام مشروع وسائل اختیار کرنا لازم ہیں، جو انسانی جان کی حفاظت وحمایت کے لیے ضروری ہیں۔

البتہ تمام اسباب و وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اعتماد ویقین اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے، کہ اس کی مشیت ورضا اور قدرت سے ہی یہ چیزیں کارآمد ہوسکتی ہیں، ورنہ ساری دنیا کسی کو مارنا یا بچانا چاہے تو یہ اللہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں.

بيماری، وبا یا وائرس انسان کو تبھی متاثر کرسکتا ہے، جب اللہ کا حکم ہو. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لاَ عَدْوَى» کوئی چیز کسی دوسری کو بیمار نہیں کرسکتی، تو ایک صحابی نے پوچھا: کہ ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے خارش لگ جاتی ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ؟» (صحیح البخاري:5775)  کہ پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے اذن اور مشیت سے ہی کسی کو لگتی ہے۔ لہذا تمام تر اسباب اختیار کرتے ہوئے اعتقاد ویقین اور عافیت وسلامتی کی امید صرف اللہ کی ذات سے ہونی چاہیے۔

{وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ} [الطلاق: 3]

جو اللہ کی ذات پر اعتماد ویقین رکھتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹرز حضرات کے بقول کرونا وائرس سے حفاظت کےلیے انسانی جسم کا دفاعی سسٹم مضبوط ہونا ضروری ہے، اللہ کی ذات پر ایمان ویقین اور حضورِ قلب سے مسنون ادعیہ واذکار کرنے سے اس کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے، مرض کا بے جا خوف و ہراس انسان کے دل سے دور ہوجاتا ہے، جب ایک عام انسان کا مارے خوف وہراس کلیجہ منہ کو آرہا ہوتا ہے، تب ایک سچا مسلمان اور کامل مومن راحت وسکون کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔

لہذا احتیاطی تدابیر اور توکل دونوں کا اہتمام ازبس ضروری ہے۔

رہی یہ بات کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا زدہ علاقے سے نکلنے سے منع کیا ہے تو وہ حدیث یوں ہے:

«إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» (صحيح البخاري:5728)

جب کسی علاقے میں طاعون کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ، اور جب تمہاری موجودگی میں کسی علاقے میں پھیل جائے، تو پھر وہاں سے نہ نکلو۔

تو اس حدیث کا تعلق طاعون کے ساتھ ہے، جبکہ کرونا وائرس اس سے مختلف وبا ہے، امام نووي علما سے نقل کرتے ہیں:

“كُلُّ طَاعُونٍ وَبَاءٌ وَلَيْسَ كُلُّ وَبَاءٍ طَاعُونًا”(شرح النووي على مسلم (14/ 204)

طاعون ایک وبا ہے، لیکن ہر وبا طاعون نہیں ہوتی۔

طاعون زدہ علاقے سے نکلنے کی حکمت کے متعلق علما نے مختلف توجیہات کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ طاعون ایک ایسا مرض ہے جو تیزی سے پھیلتا ہے، اور جس علاقے میں یہ آجائے، وہاں سب کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، لہذا موجود لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کیا گیا، تاکہ وہ دوسرے علاقوں کو متاثر نہ کریں۔

جبکہ کرونا وائرس اس سے مختلف ہے، ایک تو اس کے اثرات طاعون کی طرح واضح نہیں ہوتے، دوسرا یہ طاعون کی طرح سریع الانتشار بھی نہیں ہے کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ بلکہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اللہ کی توفیق سے اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، اور مزید احتیاط کے طور پر متاثرہ علاقے سے نکلا بھی جاسکتا ہے۔ البتہ جو بھی متاثرہ علاقے سے دوسری جگہ پر جائے، اسے میل جول سے احتراز کرناچاہیے، تاکہ کسی بھی صورت میں وہ صحتمند لوگوں کے لیے باعث تکلیف وہلاکت نہ ہو۔

یہاں ایک اہم چیز کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ وبائیں، بلائیں اور مصیبتیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں، مراد ان سے مؤمن کی آزمائش اور غافل کو تنبیہ و توجیہ ہوتا ہے، لہذا تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ اصل چیز توبہ و استغفار ہے، جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، یہ نہ ہو کہ ہم رہن سہن کی نظافت وطہارت کا تو

مکمل انتظام کریں، لیکن دل ودماغ سوچ وفکر اور اعمال کی نجاست وگندگی سے لبریز ہی رہے، ایسی صورت حال میں جگہ تبدیل کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ وبائیں وآزمائشیں زمین ومکان کی بجائے اس کے مکین اور باسیوں کے سبب آتی ہیں۔

ارشاد ربانی ہے:

{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ* وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ} [الشورى: 30، 31]

جو بھی مصیبت آتی ہے، تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے، حالانکہ اللہ بہت ساری کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے، تم اللہ کی زمین کو اس کو کسی بھی طرح عاجز نہیں کرسکتے، اور نہ اس کے سوا تمہارا حامی وناصر ہے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ} [الروم: 41]

خشکی وسمندر میں فساد کا ظہور لوگوں کے ہاتھ کی کمائی ہے، تاکہ اللہ انہیں ان کے کچھ اعمال کا بدلہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔

امام ابن ابي جمره فرماتے ہیں:

فَالْبَلَاءُ إِذَا نَزَلَ إِنَّمَا يُقْصَدُ بِهِ أَهْلُ الْبُقْعَةِ لَا الْبُقْعَةُ نَفْسُهَا فَمَنْ أَرَادَ اللَّهُ إِنْزَالَ الْبَلَاءِ بِهِ فَهُوَ وَاقِعٌ بِهِ وَلَا مَحَالَةَ فَأَيْنَمَا تَوَجَّهَ يُدْرِكْهُ. (فتح الباري لابن حجر (10/ 189)

آزمائش کا ہدف علاقہ نہیں بلکہ اہل علاقہ ہوتے ہیں، جب اللہ تعالی کسی کو آزمائش میں مبتلا رکھنا چاہیں، تو وہ جہاں بھی چلا جائے، اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

ہم احتیاطی تدابیر کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ توکل، اعتماد یقین، گناہوں سے توبہ و استغفار، فرائض کی پابندی، صبح وشام، سونے جاگنے کے اذکار اور تلاوت قرآن کریم اور نمازِ تہجد کے اہتمام کی تلقین کرتے ہیں، اور گزارش کرتے ہیں کہ درج ذیل دعاؤں کا بالخصوص وِرد  کیا جائے:

  • «بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ». [سنن أبي داود:5088]

  • «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَام». [سنن أبي داود:1554]

  • «لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ». [سنن الترمذي:3505]

  • «لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ». [صحيح البخاري:6384]

  • «اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ». [صحيح مسلم:2739]

  • «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي، وَآمِنْ رَوْعَاتِي، وَاحْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي» [سنن ابن ماجة:3871]

دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس وباء سے محفوظ رکھے، اور اس آزمائش کو ہمارے لیے دنیا وآخرت کی صلاح وفلاح کا ذریعہ بنائے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ