سوال
میں نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دی تھی ، طلاق دینے کے 15 سے 20 دن کے اندر رجوع کا ورقہ بھیج دیا، اور اس رجوع کا پتہ میری بیوی کے اہل خانہ کو بھی ہے، لیکن میرے سسرال والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کوئی فتوی دکھاؤ، جس سے ثابت ہو کہ تم میاں بیوی دونوں اکٹھے رہ سکتے ہو۔
جواب
الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
- پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عورت کی عدت کے اندر اندر خاوند رجوع کرسکتا ہے،الله تعالی کا ارشاد ہے :
((وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ) اور آخر میں ہے:((وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا)) (سورۃ البقرۃ:228)
”طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظارکریں اور اس مدت کےدوران ان کے خاوندان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔“
لہذا دورانِ عدت انسان بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ، حق مہر ونکاح وغیرہ کسی چیز کی ضرورت نہیں،لیکن اگر انسان كو عدت گزر جانے کے بعد رجوع کا خیال آیا، تو چونکہ عدت ختم ہونے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، لہذا ایسی صورت میں اس خاتون كو رشتہ ازدواجیت میں لانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ(سورۃ البقرۃ:232)
” جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی،پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں،تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“
لہٰذا معلوم ہوا کہ عدت ختم ہونے کے بعد بذریعہ نکاحِ جدید دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔
اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد اگر میاں بیوی ملنا چاہتے ہیں، تو ان کے اولیا کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
- بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق آپ کے پاس رجوع کا حق تھا، جو آپ نے استعمال کیا، لہذا آپ میاں بیوی کے پاس اکٹھے رہنے کا حق موجود ہے۔
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ (رئیس اللجنۃ)
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ