سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے شام میں اپنے استاد سے کہا :میں چاہتا ہوں کہ آپ کی خدمت کروں

فرماتے ہیں :جب میں شام پہنچا تو پوچھا:
وہ کون سی شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟
انھوں نے کہا:
فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔
میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اِس دینِ (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ، استاد کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹاتے

حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کرنے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھے رہتے۔
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے اور جب وہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ خود ہی کسی کام سے باہر نکلتے، تو ان سے حدیث پوچھتے۔ اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے
کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں
اور اپنے کام کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔
سنن دارمی، ﺑﺎﺏ اﻟﺮﺣﻠﺔ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ اﻟﻌﻠﻢ، ﻭاﺣﺘﻤﺎﻝ اﻟﻌﻨﺎء ﻓﻴﻪ
سندہ صحیح

ابن عباس نے زید بن ثابت کا کس طرح احترام کیا

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے متعلق آتا ہے کہ وہ بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے استاد کے سامنے پیش آتے تھے۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنھما حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے گھوڈے کے رکاب کو پکڑ کر چلتے اور فرماتے:

“هكذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا”

(الجامع لأخلاق الراوي: ۱۸۸/۱)

امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ﺫﻫﺐ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻟﻴﺮﻛﺐ ﻭﻭﺿﻊ ﺭﺟﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﻛﺎﺏ ﻓﺄﻣﺴﻚ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﺎﻟﺮﻛﺎﺏ ﻓﻘﺎﻝ ﺗﻨﺢ ﻳﺎ اﺑﻦ ﻋﻢ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ.

ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻫﻜﺬا ﻧﻔﻌﻞ ﺑﺎﻟﻌﻠﻤﺎء ﻭاﻟﻜﺒﺮاء

المعرفة والتاريخ :1/ 484،المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:(93)،تاريخ دمشق:19/ 326
سنده صحيح
ہمیں اپنے علماء کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اظہار خیال

ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ فرماتے ہیں:

ﻟﻤﺎ ﻣﺎﺕ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﻌﺪﺕ ﺇﻟﻰ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻓﻲ ﻇﻞ ﻗﺼﺮ ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻜﺬا ﺫﻫﺎﺏ اﻟﻌﻠﻢ، ﻟﻘﺪ ﺩﻓﻦ اﻟﻴﻮﻡ ﻋﻠﻢ ﻛﺜﻴﺮ

المعرفة والتاريخ :1/ 486 صحيح
الطبقات الكبرى لابن سعد :2/ 276 صحيح

استاد کا دروازہ کھٹکھٹانے کا ادب

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازوں پر ناخنوں سے دستک دی جاتی تھی
(الأدب المفرد للبخاری 1080)

استاد محترم کی موجودگی میں ایسے بیٹھے ہوئے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے اصحاب کی ایک مجلس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَسَكَتَ النَّاسُ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرَ

(صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ |2842)
لوگ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایسے خاموش بیٹھے ہوتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں

نظر بھر کر استاد محترم کا چہرہ ہی نہ دیکھ سکے

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ؛ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ

(مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ، 321)
اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا

استاد کی سواری کی نکلیل پکڑ کر آگے آگے چلنا

ختلی کا بیان ہے۔

رأيت شيخًا راكبًا بمنى وشيخ يقوده وآخر يسوقه
وهما يقولان: أوسعوا للشيخ
فقلت :من الراكب؟
فقيل: الأوزاعي
قلت: من القائد؟
قال: سفيان الثوري
قلت: فالسائق؟
قال: مالك بن أنس.

کہ میں نے دیکھا کہ منیٰ کے میدان میں ایک شیخ سوار ہیں، ایک ان کے آگے چل رہے اور ایک پیچھے، اور دونوں کہہ رہے ہیں کہ شیخ کے لیے راستا دو-
میں نے پوچھا:
سوار کون ہے؟
بتلایا گیا: امام اوزاعی
پوچھا:
آگے کون ہیں؟
کہا گیا:
امام سفیان ثوری
پھر پوچھا:
پیچھے کون ہیں؟
خبر دی گئی:
امام مالک رحمھم اللہ-
(الکامل لابن عدی 1/ 173)

علامہ احسان اپنے استاد محترم کے پاؤں دبایا کرتے تھے

علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید رحمہ اللّٰہ کو محدثِ زماں امام ناصر الدین البانی رحمہ اللّٰہ سے شرفِ تلمذ حاصل تھا کہ مدینہ یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں ان سے کسبِ فیض کیا تھا۔ علامہ شہیدؒ کے برادرِ اصغر جناب عابد الہٰی صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں محدث البانیؒ کی خدمت میں حاضرہوا تو علامہ شہید کا ذکر چھڑ گیا۔ امام البانی نے فرمایا:
احسان الہٰی بڑے ذہین تھے؛ میں ان کے اخلاق اور مودبانہ انداز کو نہیں بھول سکتا۔ ایک مرتبہ ہم نے لندن کا اکٹھے سفر کیا۔ میری بڑی خدمت کی اور میرے پاؤں دابتے رہے!

استاد کے ادب کی وجہ سے ایک سال تک سوال ہی نہ پوچھ سکے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنا تھا لیکن مکمل ایک سال گزر گیا (قریب رہنے کے باوجود) ان کی تعظیمی ھیبۃ کی وجہ سے پوچھ ہی نہ سکا
صحیح مسلم

استاد کے سامنے صفحہ بھی آہستہ سے پلٹتے

ہمارے سلف کا تواضع اپنے اساتذہ کے سامنے اس قدر ہوتا تھا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“کنت أصفح الورق بين يدي مالك رحمه الله صفحا رفيقا،هيبة له لئلا يسمع وقعها”

(المجموع للإمام النووی:٦٧)
“میں امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے انکی ہیبت و رعب کے بسبب کتاب کے اوراق آہستہ سے پلٹتا تھا۔

استاد کی موجودگی میں پانی نہ پی سکے

امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد امام ربیع بن سلیمان المرادی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:

و اللہ ما اجترات ان اشرب الماء و الشافعی ینظر الي ھیبة له

(تذکرۃ السامع و المتکلم لابن جماعة : 98)
کہ ” قسم اللہ کی! جس وقت امام شافعی رحمہ اللہ میری طرف دیکھ رہے ہوں تو میں نے ان کی ہیبت کی وجہ سے کبھی بھی پانی پینے کی جرأت نہیں کی۔”

ایسے شاگرد کے متعلق استاد کے جذبات

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اس شاگرد کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

ما خدمني أحد ما خدمني الربيع
وكان يقول له: يا ربيع، لو أمكنني أن أطعمك العلم لأطعمتك

میری جتنی خدمت ربیع نے کی ہے اتنی کسی اور نے نہیں کی
اور فرمایا کرتے تھے :اے ربیع! اگر میرے لیے ممکن ہوتا کہ میں تجھے علم کھلا سکتا تو ضرور ایسے کرتا

مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم نے کچھ نہیں پڑھا بس اساتذہ کی خدمت کی ھے ان کی دعائیں لی ہیں اوربس

مفتی عبدالرحمن عابد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ

آپ کے ایک ہم عصر جامعہ فیلو نے مجھے بتایا کہ شیخ عبدالرحمن عابد، زمانہ طالب علمی میں وضو کرتے اساتذہ کے پیچھے تولیہ پکڑ کر کھڑے رہتے جب استاد محترم فارغ ہوتے تو فوراً خشک تولیہ پیش کرتے

استاد کی موجودگی میں سوال کا جواب نہ دیں

محدث حافظ سفیان بن عیینہؒ کی موجودگی میں عبداللہ بن مبارکؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:

إنا نهينا أن نتكلم عند أكابرنا

(سير أعلام النبلاء 8/ 420)
ہمیں اپنے اکابر کی موجودگی میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے!

ہزاروی صاحب کی موجودگی میں نور پوری صاحب

ایک دفعہ شیخ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ سے شیخ عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک مسئلہ پوچھا گیا تو شیخ نورپوری نے استاد محترم کی موجودگی میں مسئلہ بتانے سے انکار کر دیا اور سائل کو ہزاروی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: استاد جی سے پوچھ لیں

ایک شاگرد کے اپنے استاد سے متعلق جذبات

امام ابن القيم رحمہ اللہ اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”جب کبھی خوف کے سائے گہرے ہوتے، بُرے خیالات راہ بناتے، زمین تنگ پڑنے لگتی؛ ہم ان کے روبرو حاضر ہو جاتے، انہیں دیکھنے اور سننے کی دیر ہوتی کہ سب کچھ چَھٹ جاتا، انشراحِ صدر، قوت، یقین اور گُونا گوں اطمینان نصیب ہو جاتا …“
(الوابل الصيب : 48)

علامہ اقبال فرماتے ہیں :

تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوَض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دِل پیش کیجیے

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبَق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ “بِل پیش کیجیے!”

“إن المُعلّم والطبيب كلاهما لا ينصحان إذا هُما لم يُكرما فاصبر لدائكِ إن أهنتَ طبيبه

واصبر لجهلك إن جَفوتَ مُعلّما

عمران محمدی