سوموار کے دن کا سورج اپنے خالق کی طرف سے لگائی ہوئی ڈیوٹی کے مطابق طلوع ہو رہا تھا اور سوموار کا دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھی پسند تھا کیونکہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ میں سے ایک سوموار کا روزہ رکھنا بھی تھا. اسی نسبت سے بندہ ناچیز نے بھی روزہ رکھ لیا اور ادھر ہی جائے نماز پر بیٹھ کے تلاوت شروع کر دی، تلاوتِ قرآن جاری ہی تھی کہ کافی ٹائم بعد مجھے منشی نے اپنے پاس بلا لیا..
میں وہاں پہنچا تو منشی مجھے یہ سبق یاد کروانے لگا کہ یہ پولیس کا محکمہ ہے جو پوچھیں سچ بتا دینا ورنہ ماریں گے بہت….
میری زبان ایک ہی جواب تھا کہ جو ہو گا بہتر ہو گا بہتری کے سوا کچھ نہیں ہو گا…
منشی میرے اطمینان بخش تاثرات دیکھ کر اپنے کام میں لگ گیا…
اتنے میں منشی کے نمبر پر ایک کال آتی ہے جس کے بعد وہ جوانوں اور محافظوں کے روٹ سیٹ کرنے میں لگ گیا..
پہلے تو مجھے روٹ کی سمجھ نہ لگی بعد میں پتا چلا کہ اج کلمہ چوک سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے گزرنا ہے تو ہمارے تھانے سے بھی دس سے پندرہ بندے وہاں طلب کیے گئے ہیں…
پہلے تو مجھے لگا شاید اس تھانہ کے آلات اور جوان خوب ٹریننگ یافتہ ہیں شاید اس لیے طلب کیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ روٹین کا معاملہ ہے اور روٹ پر بیجنے والوں کے ہاتھ جو گن دی جاتی تھی وہ چلتی نہیں اور میگزین میں ایک دو گالیاں ہوں گی یعنی منشی بس برائے نام کا اسلحہ ان کے ہاتھوں میں تھما کر انکو روانہ کر رہا تھا..

اس سے اس محکمے کی سنجیدگی کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں تھا..
بس اسطرح وہاں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی کہ ڈولفِن والےایک جہاز کو پکڑ لائے اور قصور یہ تھا کہ کسی کے گھر گھس کر پرس چوری کیا ہے اور جس خاتون کا چوری کیا اس نے کہا کہ یہ عادی مجرم ہے اسے پلیز چھوڑنا نہیں ہے۔
خیر اس کو پیچھے حوالات میں بند کیے رکھا اور کوئی تین سے چار گھنٹے انتظار کیا کہ خاتون اپنے کسی محرم کے ہمراہ تھانہ میں پہنچ کر اپنی مدعیت میں پرچہ کرائے گی لیکن کافی گھنٹے انتظار کے بعد میڈم صاحبہ نے کہا اسے چھوڑ دیں میں معاف کیا۔
جب مجھے عورت کی طرف سے معافی کا پتا چلا تو میں نے اس بندے کو سمجھایا کہ ایک تو نشہ چھوڑ دو دوسرا کوئی مزدوری وغیرہ کر لیا کرو کیونکہ حلال رزق میں برکت ہوتی ہے اور وعدہ کرو کہ اج کے بعد نماز نہیں چھوڑو گے اگر تو ان کا عزم کرتے ہو تو میں تمہاری بات کرتا ہوں آپکو چھوڑ دیں گے کہتا میرا وعدہ ہے ایسا ہی کروں گا۔
لہذا آپ مجھے ریلیز کروائیں۔ میں نے بات کیا کرنی تھی وہ تو پہلے ہی چھوڑنے والے تھے وہ تو مجھے تبلیغ کا ایک موقع مل گیا تھا۔
مجھے لگا ہو سکتا یے وہ باز آجائے اور توبہ تائب ہو کر درست زندگی بسر کرنے لگ جائے..
بس پھر کچھ دیر بعد اسے ریلیز کر دیا گیا تھا۔

وہ گیا تو میں نے دوبارہ تلاوت شروع کر دی تاکہ کچھ پارے پڑھنے کے بعد رک کر دعا کر لیتا تھا، یوں وقت گزر رہا تھا کہ نماز ظہر کی اذان سنائی دی اور میں نے آٹھ کر وضوء کیا جب وضوء مکمل ہوا تو دو بزرگ پولیس اہلکار مجھے مخاطب ہوئے کہ جماعت نہ کروا لیں؟

میں کہا اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے؟ انہوں نے میرے پیچھے نماز ادا کی تو پڑھنے کے بعد بولے کہ اتنے اطمینان سے نماز آج پہلی مرتبہ پڑھی ہے۔
وہ سنتیں پڑھ کر روانہ ہو گیے میں وہیں بیٹھا ہوں اور دوبارہ تلاوت شروع کر دی۔ یہ تلاوت کا سلسلہ جاری تھا کہ منشی کے نمبر پر کال آتی ہے کہ رات جس بندے کو پکڑا وہ حراست میں ہی یے منشی نے کہا جی سر حراست میں ہی یے۔

اس نے کہا کہ میں ڈی ایس پی کا ریڈر بات کر رہا ہوں اسے فلاں تھانے میں منتقل کر دیا جائے
جب کال بند ہوئی تو مجھے منشی نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپ کا بلاوا آگیا ہے لہذا تیار ہو جائیں، میں کہا ریڈی ہوں بتائیں جانا کہاں ہے؟

منشی کہنے لگا گاڑی میں بیٹھ جائیں اور یہ آپ کو ٹاؤن شپ تھانے میں لے کر جائیں گے۔  میں دو پولیس اہلکار کے ہمراہ کچھ سفر طے کرنے کے بعد متعلقہ تھانے میں پہنچا تو ساتھ لانے والے پولیس اہلکاروں نے مجھے ادھر  کے منشی کے سپرد کیا اور واپس لوٹ گیے…

جب یہاں پہنچا تو مجھے پیچھے ایک محرر کا آفس تھا وہاں بٹھا دیا گیا ساتھ ہی چھوٹا سا کمرہ ریسیپشن کے لیے تھا.. میں وہاں بیٹھ کر تلاوت تو کر نہیں سکا البتہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد کثرت سے جاری رکھا… اس دوران ریسیپشن پر ایک عورت آتی ہے کہ میری بیٹی کی شادی کو 4 ماہ ہوئے ہیں پہلے سسرال والے بہت اچھا سلوک کرتے تھے لیکن کچھ دنوں سے وہ میری بیٹی پر ظلم کرتے ہیں اور اج تو اس کا سر بھی پھاڑا ہے وہ جناح ہاسپٹل میں داخل ہے بے۔ شک اپ تصدیق کر سکتے ہیں، بات سانے کے  ساتھ وہ ماں رو رہی ہے کہ وہ اب کہتے ہیں کہ اگر پولیس کو بتایا تو شام تک اپکے بیٹوں کو قتل کر دیں گے… منشی نے ساری صورتحال سنی کہا کہ پرچہ ہو جائے لیکن اس کے لیے کچھ رقم دینا ہو گی کیونکہ کام جلدی نمٹایا جائے گا…… یعنی اس کا دوسرا نام رشوت ہے

کچھ دیر بٹھانے کے بعد ان کو روانہ کر دیا اور ایف آئی آر میں درج عورت کے شوہر کو کال ملائی کہ اپکی ساس پرچہ کٹوا گئی ہیں اگر تو چاہتے ہو پولیس نہ پکڑے تو فلاں ٹائم پہنچ کر اتنی رقم دے جاؤ……

میں بیٹھا یہ سب سین دیکھ رہا تھا اور. حیران بھی تھا کہ اگر تو یہ حال ہے تو چایے لاکھ آئی جی بدل لیں یا یونیفارم بدل لیں.. نہیں سدھر سکتی تو پنجاب پولیس نہیں سدھر سکتی۔
اسی طرح کے اور بہت سے کیسز وہاں آرہے تھے اور بس باؤ تاؤ کر جیب گرم کی جا رہی تھی۔
مجھے وہاں بیٹھے کافی وقت گزر چکا تھا اور اذکار جاری تھے..
اچانک ایک پولیس اہلکار اور ایک سول لباس میں ملبوس شخص میرے پاس پہنچے. انہوں نے کہا کچھ معاملات چاہئیں اپ سے اگر صحیح بتائیں گے تو چھوڑ دیں گے میں عرض کیا کہ اپ حکم کریں مجھے صحیح جوابات کے ساتھ ہی پائیں گے۔ ان شاء اللہ

خیر انہوں نے اپنی تفتیش مکمل کی اور مجھے وہیں بیٹھے رہنے کا کہا…. میری پریشانی بس یہ تھی کہ پیچھے کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے اگر کروا دیں تو کچھ حد تک پریشانی کم ہو جاتی لیکن میرے کہنے پر مجھے کال نہیں کروائی گئی.. تب بھی صبر کا گھونٹ پیا اور اذکار شروع کر دیے…
اب عصر کا وقت ہو چکا تھا.. نماز کے لیے وضو کیا اور وہیں نماز عصر ادا کی اور ساتھ دعا کی کہ اللہ میرے معاملہ کو آسان بنا دے….

ابھی بیٹھا اذکار کر ہی رہا تھا کہ اہلکار کہتا آپ کامران؟
میں کہا جی بالکل میں ہی ہوں۔
کہنے لگا آجائیں ڈی ایس پی صاحب بلا رہے ہیں۔ وہاں پہنچا تو پیچھے کھڑا کر دیا گیا اور کچھ سوالات پوچھے جن کا جواب دیا تو موصوف فرمانے لگے اپ جھوٹ بول رہے ہو میں کہا یہ جھوٹ تو نہیں البتہ حقیقی سچ یہی ہے۔ باقی افسر ہیں بہتر سمجھتے ہیں کہ ان جوابات کو کیا پہلو دینا ہے۔

اس نے اہلکار کو بلایا کہ اسے لے جاؤ اور حوالات میں بند کر دو.. وہ مجھے واپس لا ہی رہا تھا کہ آگے وہی افسر جس نے میری تفتیش کی تھی وہ کھڑے ہیں ان کے ساتھ کمپنی کے مالکان میں سے ایک تھا۔ اسے ہاتھ کڑی لگی ہوئی تھی مجھے بھی ہاتھ کڑی لگائی اور گاڑی میں بٹھا کر کسی اور تھانے لے جانے کا اجازت نامہ لیا اور ساتھ لے گیے…
گاڑی میں بیٹھے اہلکار پوچھتے ہیں کہ اپ کس کیس میں مطلوب تھے؟
میں نے آہستہ آواز سے کہا کہ اس جواب کی تلاش مجھے بھی ہے۔
خیر باتیں ہوتی گئیں گاڑی میرے جاننے والے علاقے کی طرف جا رہی تھی اور اچانک گاڑی ایک تھانے کے سامنے رکتی ہے اور یہ تھانہ قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کا تھا… وہاں جا کر جب بٹھایا تو مغرب کا وقت قریب تھا یعنی اذان مغرب میں چند منٹس باقی تھے…. میں دعا مانگنا شروع کر دی اور جاری ہی تھی کہ اللہ اکبر کی صدا کانوں میں پڑی تو پانی طلب کر کے روزہ افطار کیا…. اور افطاری کے بعد نماز مغرب ادا کی اور کچھ دیر تلاوتِ قرآن… اب میری جیب میں کچھ پیسے تھے اس میں سے سو کے سیب منگوائے تو ایک سیب میرے حصے آیا باقی ملازمین نے رکھ لیے.
اب یہاں مغرب سے عشاء تک سوالات کرتے رہے جن کا جواب دیتا رہا اور مطمئن بھی ہو رہے تھے… یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ نماز عشاء کے لئے اذان ہونا شروع ہو جاتی ہے
میں نماز عشاء ادا کی تو ان سے یہی التماس کی کہ کم از کم کچھ دیر لیٹنے دیں چایے حوالات میں ہی کیوں نہ ہو….
اس وقت تک میرا کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اور مجھے لیٹنے کے لئے چار پائی دی اور ہاتھ کڑی لگا کر چار پائی کے ساتھ بھی لگا دی تاکہ فرار نہ ہو سکے….. مجھے لیٹنے کا موقع میسر آیا تھا کیونکہ ساری رات اور اگلا سارا دن میں مسلسل بیٹھا ہی ہوا تھا.. اب چار پائی پر لیٹنے کے بعد اللہ ساتھ باتیں کرنے لگ گیا جیسے مجھے جواب مل رہے ہوں….لیکن مجھے اطمینان بہت ہو رہا تھا الحمدللہ…. کہ اللہ مجھے اس آزمائش سے نکال دے گا ان شاء اللہ….
میں نے تفتیشی سے قران طلب کیا جوکہ مجھے مل گیا الحمدللہ
اب میں ساری رات میں سے کچھ رات تک چار پائی پر لیٹا قرآن ہی پڑھتا رہا جیسے ہی نصف رات شروع ہوئی تو روٹین کے مطابق تہجد کی نماز شروع کر دی تاکہ فجر کاذب تک کا وقت گزر جائے… جیسے ہی نماز مکمل ہوئی تو اذان کی آواز کانوں میں سنائی دینے لگی… میں نے نماز فجر ادا کی اور اذکار وتلاوت کی اور صبح کے اذکار کر کے تلاوت شروع کر دی تھی ابھی تلاوت کا سلسلہ جاری ہی ہے کہ نماز إشراق کا وقت ہو گیا تھا، اسی وضو سے نماز اشراق ادا کی اور اس کیس کے متعلقین کے لیے دعائیں کی اور اس سلسلے کا اختتام کیا…
اب چونکہ منگل کا دن شروع ہو چکا تھا۔ جاری ہے۔

کامران الٰہی ظہیر