کیا آپ جانتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے باوجود آپ کو سکون اطمینان کیوں نہیں محسوس ہوتا؟ اور آپ کی پریشانی کیوں نہیں دور ہوتی؟ آپ نماز پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، صدقہ دیتے ہیں، پھر بھی آپ کو سکون نہیں ملتا۔ آپ کی فکر اور پریشانی باقی رہتی ہے۔؟
معزز قارئین! ہم میں سے بہت سے لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اور بسا اوقات کثرت سے ذکر اذکار کا التزام بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ اگر ان کی پریشانی تھوڑی دیر کے لئے دور ہوتی بھی ہے تو کچھ ہی وقت کے بعد وہ فکر اور پریشانی دوبارہ آ کر ان کی زندگی سے چمٹ جاتی ہے۔ اور ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ ان نماز روزوں کا کوئی اثر ہی نہیں۔
کیا آپ کو اس کی وجہ معلوم ہے؟
اس کی وجہ بالکل واضح ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے ظاہری اعضاء اور جوارح کے ذریعے عبادت کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اور دل کی عبادت سے ہم یکسر غافل ہیں۔ حالانکہ دل کی عبادت ہی اصل ہے اور اسی پر سکون و اطمینان کے حصول کا دارومدار ہے۔ دل کی عبادت کی اپنی خاص قدر و منزلت ہے، بلکہ عام طور پر دل کی عبادت ظاہری اعضاء و جوارح کی عبادت سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس میں کیا ہوتا ہے اٹھنا بیٹھنا۔ ہمارے اعضاء و جوارح حرکت کرتے ہیں مگر ہمارے دل نماز نہیں پڑھتے۔ وہ غفلت و لاپرواہی کا شکار ہوتے ہیں۔ دلوں میں غور و فکر اور خشوع و خضوع موجود نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہماری نمازوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور نہ اس سے کوئی مقصد ہی حاصل ہوتا ہے، نہ ہماری نمازیں ہمیں برائیوں سے روکتی ہیں اور نہ ہی ہمارے دلوں سے غم و پریشانی کو دور کرتی ہیں اور نہ ہی مشکلات و مصائب میں ہماری معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ بھی ہمارا یہی حال ہے۔
کیا ایسا نہیں ہوتا ہم قرآن کھولتے ہیں، ہمارے ہونٹ حرکت کرتے ہیں، ہماری آواز بلند ہوتی ہے مگر ہمارے دل دنیا میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ تلاوت کے وقت ہمارے دل ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔
اسی طرح جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو اس میں یہ احساس و کیفیت نہیں پیدا ہوتی۔ فضول اور لغو چیزوں سے باز نہیں آتے۔ حکم الہی میں غور و فکر نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کے لیے خشوع و خضوع کی کیفیت ہے پیدا کرتے۔
معزز قارئین! درحقیقت یہ بہت اہم مسئلہ ہے چنانچہ جسے سعادت مندی کی خواہش ہو اور اور عبادت کے اصل فائدے اور حقیقی مقاصد حاصل کرنا ہو تو اسے ظاہری اعضاء اور جوارح کے ساتھ دل سے عبادت کرنی چاہیے۔ اگر دل کی اصلاح ہو جائے تو سارے اعضاء کی اصلاح ہو جائے گی۔
بسا اوقات ہم نماز، صدقہ، عمرہ وغیرہ عبادات کو ہم بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ مگر ہم دل کی عبادت صحیح طریقے سے نہیں کر پاتے۔جہاں اعضاء اور جوارح کی عبادت کی درستگی دل کے ساتھ دینے پر منحصر ہے، اسی طرح دل کی کچھ خاص عبادات ہیں جیسے توکل، محبت، حسن ظن صبر و رضا اور اللہ کی تعظیم و غیرہ۔
کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے دلوں پر اللہ کی کیا کیا عبادتیں واجب ہیں؟ یا ہم دل کی عبادات کو سرے سے بھلا بیٹھے ہیں۔ چنانچہ نہ توکل ہے نہ تسلیم و رضا، نہ صبر اور حسن ظن۔ ہمارے اوپر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم جزع فزع کرنے لگتے ہیں، بے صبرے بن جاتے ہیں، شکوہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بسا اوقات مایوسی اور نا امیدی بھی ہمارے دل میں سرایت کر جاتی ہے۔
اللہ تعالی ہمارے جسموں کو نہیں دیکھتا بلکہ سینوں میں موجود ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔
لہذا اپنے آپ سے پوچھئے کہ میرے دل کی عبادت کیسی ہے؟ میرا دل اللہ کی عبادت پر قائم ہے؟ کیا صحیح معنوں میں مجھے اللہ پر بھروسہ اور اس پر اعتماد ہے؟ اور اپنے سارے امور کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں؟ یا میں زیادہ تر لوگوں پر بھروسہ رکھتا ہوں؟ کیا میرا دل اللہ کی محبت، خوف و خشیت اور امید سے بھرا ہوا ہے؟ میرے دل میں صبر و رضا کی کیا مقدار ہے؟
ہمیں اپنے دل پر محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دل کے احوال بڑی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے جسے دل کی عبادات میں کامیابی مل گئی اسے درحقیقت زندگی کی سعادت مل گئی۔
لہذا میری نصیحت ہے کہ ہمیں دلوں کے اعمال و عبادات کے بارے میں جاننا چاہیے۔ ہم گوگل پر اپنی من پسند کی چیزیں ڈھونڈتے اور تلاش کرتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس کا استعمال کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دل کے اعمال اور عبادات کیا ہیں۔ کیسے ہم توکل کریں؟ کیسے ہمارے اندر صبر و رضا کی کیفیت پیدا ہو؟ کیسے ہمارے دل کے اندر اللہ کی محبت آئے؟ تاکہ اللہ تعالی نے دل کو جن عبادات کے لئے لیے پیدا کیا ہے وہ عبادات انجام پا سکیں۔

اللهم رقق قلوبنا ,اللهم اني اعوذ بك من قلبٍ لايخشع ومن عين لاتدمع ياحي ياقيوم

(عربی سے منقول)

شاہد سنابلی