کسی سنسان گلی میں لڑھکتے خزاں رسیدہ خشک پتّوں کی مانند، کسی طویل ہوتی اندھیری رات میں جگنوؤں کی تلاش میں بھٹکتے طیور کی طرح متاعِ حیا و وفا کھوجتے یہ لوگ جب واپس ناکام و نامراد ان ہی تنگ و تاریک دَم گُھٹی گلیوں اور تیرگیوں میں لَوٹ آتے ہیں تو پھر یہ اپنی معاشرتی گراوٹ اور حیا باختگی کو چُھپانے کے لیے پاکستان میں ہونے والے کسی واقعے کو تڑکا لگا کر تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔اپنی کٹی ہوئی ناک پر ہاتھ رکھ کر دوسروں کو نکٹا ثابت کرنے کے لیے یہ لوگ پاکستان میں ہونے ہونے والے کسی بھی مجرمانہ واقعے کو اچھالنے لگتے ہیں کہ دیکھو! یہاں خواتین دکھوں اور مظلوم داستانوں سے لدی ہیں۔کچھ یہاں بھی اغیار کی ” غلام فہم“ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی تو عورت ہے، اس کے بھی تو حقوق ہیں۔وہ بھی تو خواتین ہی تھیں کہ جن کی منڈیاں لگا دی گئی تھیں۔امریکی ظلم و جبر سہتی ان حرماں نصیب عورتوں کے ساتھ تو چلو مسلمان کا لاحقہ لگتا تھا، مغرب اور یورپ کی سسکتی تڑپتی عورت ان گوروں کے گورے گالوں پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہیں۔آج تحقیقی رپورٹس کے واشگاف اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ امریکا کی ہر چوتھی عورت اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ کے بدترین تشدّد کا نشانہ ہے۔ظلم و سربریت کے یہ گھور اندھیرے یورپ، مغرب اور امریکا کے علاوہ دنیا کے کسی اور گوشے میں نظر نہیں آتے جو خود امریکی تحقیقی ادارے اپنی رپورٹس میں لکھ چکے ہیں۔امریکا میں ہر سال دس سے بیس سال کی 931670 لڑکیاں شادی سے قبل ہی ماں بن جاتی ہیں۔ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پندرہ سے انیس سال کی دو لاکھ اور بیس سے چوبیس سال کی چار لاکھ بیاسی ہزار لڑکیاں بِن بیاہی لڑکیاں مائیں بن جاتی ہیں اور یہ حقیقت بھی چونکا دینے والی ہے کہ امریکا میں شدید ذہنی کوفت اور اذیت کے باعث 70 ہزار عورتیں ہر سال حملہ ء قلب یا دماغ کی شریان پھٹنے سے مر جاتی ہیں۔امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ بھی ملاحظہ کریں کہ امریکا میں ہر سال سات لاکھ خواتین جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں۔پیرس جیسے شہر میں برسوں تک شادی کا کوئی ایک واقعہ تک رونما نہیں ہوتا۔کیا یہ عورت پر ظلم کی انتہائی بھیانک شکل نہیں کہ عورت کے ساتھ شادی کر کے اپنے گھر، آنگن اور دل کی زینت بنانے کی بجائے اسے محض مَردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا دیا جائے؟۔
پاکستان میں کسی عورت پر تشدّد کے واقعے پر مغرب اور یورپ آسمان سَر پر اٹھا لیتا ہے۔وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان مرد اپنی عورتوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔مغرب، امریکا اور غیر ملکی نشریاتی اداروں کے اس پروپیگنڈے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اُن کے اپنے معاشرے کی ستم رسیدہ خواتین اُن کے ظلم سے تنگ آ کر کہیں اسلام قبول کرنے کی طرف مائل نہ ہو جائیں سو پاکستان میں کسی عورت پر تشدّد کے واقعے کا ڈھنڈورا خوب پیٹا جاتا ہے۔
ان کے اپنے معاشرے میں مردوخواتین کے جرائم کی خفیف سی جھلک دیکھیے۔ نینسی کرمپٹن امریکی رومانوی ناول نگار ہے، اس خاتون نے کچھ عرصہ قبل ایک مضمون تحریر کیا کہ ”اپنے شوہر کو کیسے قتل کیا جائے؟ “ اور پھر اس نے خود ہی اپنے 63 سالہ خاوند شیف بروفی کو قتل کر دیا، 27 مئی 2022 ء کو امریکی عدالت اسے مجرم قرار دے چکی ہے۔
ہمارے پڑوس میں موجود بالی ووڈ کی کتنی اداکارائیں قتل کر دی گئیں، کیا وہ خواتین نہیں تھیں؟ کیا وہ حقوقِ نسواں سے تہی اور معرّا تھیں؟ بالی ووڈ کی ایک خوب رُو اداکارہ کرشمہ کپور بھی اپنے صنعت کار شوہر سنجے کپور کے خلاف تشدّد کی ایف آئی آر درج کروا چکی ہے۔کرشمہ کپور کا حُسن بھی یہ کرشمہ نہ دِکھا سکا کہ وہ اپنے شوہر کے تشدّد سے محفوظ رہ سکے مگر ان ممالک میں عورت پر ظلم و جبر اور سفاکیت کو مغرب اور امریکا محض اس لیے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتا ہے کہ یہ سب غیر مسلم معاشرے میں ہوتا ہے۔اگرچہ مغرب اور یورپ کے عیسائی صرف نام کے عیسائی رہ چکے ہیں، وہ سب سیکولرازم کو اپنا چکے ہیں مگر جب اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی نوبت آئے تو وہ سب کٹّر عیسائی بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ معاندت کا کوئی حیلہ جانے نہیں دیتے۔
مشرق کے ” متاثرینِ مغرب“ بھی رشتوں ناتوں کے حقیقی اور فطری اطوار سے بے یقینی اور بے مروّتی برت کر ان ہی تاریک گوشوں میں بھٹکنا چاہتے ہیں کہ جو آج مغربی تہذیب کا بدنما داغ بن چکے ہیں۔عورت کے حقوق کا محافظ اور پاسبان اسلام سے بڑھ کر کوئی اور مذہب ہو ہی نہیں سکتا ،سو حقوقِ نسواں بڑے ہی واضح ہیں، اسلام نے جو عورت کو حقوق دیے ہیں ان کا مطالعہ ہی کر لیا جائے تو شکیل جمالی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔
ابھی روشن ہُوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
حقوق ہی نہیں بلکہ فرائضِ نسواں بھی بڑے ہی واشگاف ہیں۔مانا کہ ہمارے معاشرے میں ہزاروں عورتیں اپنے شوہر کے تشدّد کی شکار ہیں مگر شوہر کے سامنے بیوی کی قینچی کی طرح چلتی زبان کسی کو نظر نہیں آتی، پاکستان کی عورتیں اگر اس حدیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو ازبر کر لیں تو پچاس فی صد سے زیادہ مسائل حل ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو مَیں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔“جب ایسی احادیث کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا تو پھر مسائل تو پیدا ہوں گے، اسلامی تعلیمات سے رُوگردانی کر کے پیچیدہ اور اجاڑ راستے ہی بھٹکنے کو ملیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج شوہر اور بیوی کے درمیان رشتوں میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں اور ہر آنے والا دن ان تعلقات کو مزید کشیدہ کرتا چلا جا رہا ہے۔
گیلپ پاکستان کے 2019 ء کے ایک سروے کے مطابق دیہی علاقوں سمیت پاکستان بھر میں طلاق کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، جب کہ 2020 ء اور 2021 ء کے دوران اس کی شرح میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، اسی لیے دسمبر 2021 ء میں لاہور میں طلاق کے بڑھتے ہوئے مقدمات کے باعث فیملی کورٹس کی تعداد 6 سے بڑھا کر 12 کر دی گئی تھی۔
بیوی کی آنکھیں نوچ لی گئیں، بیوی کو آگ لگا دی گئی، آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کر دیا گیا، ۔کراچی میں چھے بچوں کی ماں کو قتل کرکے جسم کے ٹکڑے کیے اور لاش کو دیگ میں ڈال کر جھلسا دیا گیا۔یہ اب معمول کی خبریں بن چکی ہیں۔ایسے گھناؤنے ظلم کو دیکھ کر ” سیدہ عرشیہ حق“ یوں چیخ اٹھی تھی۔
تم بھی آخر ہو مرد کیا جانو
ایک عورت کا درد کیا جانو
یہ گھناؤنے اور اندوہناک جرائم بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔جب تک زندگی کے تمام معاملات میں اسلام سے راہ نمائی نہیں لی جائے گی، یہ مسائل بھیانک سے بھیانک شکل اختیار کرتے ہی رہیں گے، جب تک اسلام کو ضابطہ ء حیات نہیں بنایا جائے گا شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات پر خزاں رُتیں یوں ہی غالب رہیں گی۔اگر خاوند اپنی بیوی کے حقوق اور بیوی اپنے شوہر کے ان حقوق سے آشنائی پیدا کر لیں جو اسلام نے متعیّن کیے ہیں تو زندگی پیار اور محبت کا گُل دستہ بن سکتی ہے, اختر شیرانی نے کیا خوب کہا تھا!
اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی
اب تو چلیے پیار کی باتیں کریں