کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے وقت رخصت پر انسان تو انسان شجر و حجر بھی اشکبار ہوتے ہوں گے۔ انسان کا کسی کے ساتھ جتنا گہرا اور مبنی بر اخلاص تعلق ہو اس کے ہجر و فراق اور وصل و الصاق پر غم اور خوشی کا اثر بھی اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔ شاذ ونادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ خونی رشتہ بھی نہیں ہے اور داغ مفارقت پر اس قدر رنجیدہ اور غمناک ہوا جائے۔
لاریب، یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ استاد محترم حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ کی رحلت دور حاضر کے عظیم واقعات میں سے ایک ہے ۔ ان کی وفات کی خبر ان کے چاہنے والوں اور الفت و عقیدت کا دم بھرنے والوں پر قیامت صغریٰ بن کر گزری، مجھ پربھی ان کی وفات کی خبر نے یہی اثر چھوڑا۔ جونہی نماز عصر کے بعد ان کی رحلت کی خبر ملی تو یوں لگا جیسے سب کچھ ہی اجڑگیا ہو۔ اس درد و الم سے لبریز خبر نے گویا چند لمحوں کے لیے سکتہ طاری کر دیا یوں محسوس ہوا کہ جیسے ایک مشفق و مربی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیاہے ۔اب کیا ہوگا۔ ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی، اس سانحے پر کیسے سروائیو کریں گے۔ اب ہمیں ہماری لغزشوں اور سستیوں پر کون متنبہ کرے گا اور اصلاح کا بیڑا اٹھائے گا۔ بس انہی خیالات میں گم کئی لمحات گزر گئے اورپاس ہونے والے حالات و واقعات کی سدھ بدھ ہی نہ رہی۔
حافظ صاحب کا تعلق اوررشتہ بلا شبہ ہزاروں افراد سے تھا جن میں ان کے طلبا،اساتذہ کرام، جماعتی احباب، معاصرین بزرگ،رشتہ دارو دیگر افراد شامل ہیں اور ہر کسی کو ان سے جتنی بھی نسبت تھی وہ اس پر نازاں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان سے کم سےکم قربت بھی بہت بڑے اعزاز والی بات ہے۔ اسی طرح ان کی رحلت کے بعد ہر کوئی چاہے گا کہ اس کے ساتھ جو ان کا حسن سلوک اور ہمدردی تھی اس کا اظہار کیا جائے ۔ ان کا ذکر خیر کرنا اب ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔
یوں تو استاد محترم حضرت حافظ صاحب سب کے ساتھ ہی محبت واپنائیت اور خیر خواہی کا معاملہ کرتے تھے مگر جب ان کو ان کے پرانے شاگرد خصوصا جنہوں نے جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ کے ابتدائی بیجز میں فراغت حاصل کی ملتے تو حافظ صاحب کی خوشی دیدنی ہوتی ۔ اپنی مصروفیت ترک کرکے وقت نکالتے ، محبت اور اپنائیت کے ساتھ پاس بٹھاتےاور اپنے ہاتھ سے ضیافت اور مہمان نوازی کرتے اس پر اگر شاگرد از راہ ادب و احترام حائل ہوتے کہ استاد محترم آپ تکلیف نہ کریں ہم خود اشیائے اکل و شرب لے لیتے ہیں تو ایسا جواب دیتے کہ جس کے بعد مزید اسرار کی سکت نہ رہتی ۔
حافظ صاحب کے ساتھ میری آخری ملاقات پیارے بھائی اور کلاس فیلو حافظ محمد ابراھیم صاحب کے ہمراہ ہوئی۔ حافظ صاحب تب بخاری کی شرح لکھنے میں اپنے ریسرچ روم میں ہوا کرتے تھے اور ملاقات وغیر بھی وہاں ہی ہوتی تھی، جب باہر والے گیٹ سے اندر پیغام پہچایا گیا کہ آپ کے طالب علم اور روحانی بیٹے آپ سے شرف ملاقات چاہتے ہیں تو نہ صرف اجازت دی بلکہ ہمیں لینے کے لیے باہر والے گیٹ پرخود آگئے دور ہی سے بلند آواز سے پکارنے لگے:”السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔ واہ واہ مولانا صاحبان اھلا و سھلا اور ساتھ ہی گلے لگا لیا پر تپاک انداز سے معانقہ کیا۔ ہم نے عرض کی استاد جی آپ نے تکلیف کیوں کی ہم خود حاضر ہو رہے تھے تو کہنے لگے بیٹا ایسی بات مجھے اچھی نہیں لگتی جب میں آپ جیسے اپنے شاگردوں کو دیکھتا ہوں تو میرا خون بڑھ جاتا ہے دین کے طلاب اور علما کے لیے یہ تکریم تو باعث اجر ہے۔
کمرے میں بیٹھنے کے بعد کمرے میں موجود فریج سے ضیافت کے لیے اشیا دیکھنے لگے تو ہم نے کہا استاد جی آپ تشریف رکھیں ہم خود لے لیتے ہیں۔ آپ بتادیں تو فرمانے لگے ” میری چیزیں کہاں پڑی ہیں آپ زیادہ جانتے ہیں یا میں خود ؟” اس جواب پر ہمیں مبہوت و مسکوت ہونا پڑا۔ پھر فریج میں سے فروٹ نکال کر اپنے ہاتھوں سے پیش کرنے لگے یہ سب مناظر ہمارے لیے ایسے تھے کہ جیسے ہم بے ادبی اور عدم تکریم کے مرتکب ہو رہے ہوں لیکن استاد محترم کا سختی سے حکم تھا کہ مولوی صاحب تشریف رکھیں اٹھنا نہیں ہے۔ ان کی یہ ضیافت کی ادا ہمارے لیے اب حکم استاذ تھی جسے اب حکم عدولی کرنے کی گنجائش نہ تھی ۔
اس کے بعد استاد محترم ہم دونوں سے فردا فردا گھر کے افراد کی خیریت پوچھتے رہے جیسے ایک باپ اپنے بچوں کو دیر بعد ملا ہو تو ان سے سب بچوں بارے دریافت کرے ہم حیران تھے کہ فراغت کو دو دھائیاں بیت چکی ہیں۔ استاد محترم ہمارے نجی رشتوں کو اب بھی جانتے ہیں اورخیریت دریافت کر رہے ہیں۔ پھر مصروفیت کا پوچھنے لگے کہ کیا کر رہے ہیں اور ان سب میں سے ان کا اہم سوال تھا کہ جمعہ پڑھا رہے ، درس و تدریس کا کام کر رہے ، دین کے لیے کیا کر رہے ؟ ۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔ یعنی ہمارے جانے کے بعد بھی ان کو ہمارے دین اور آخرت کی اتنی فکر تھی ۔۔ فجزاہ اللہ لذالک
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب کی جہاں بہت سی خوبیاں تھی وہاں یہ بھی ایک خوبی تھی کہ وہ خود سے چھوٹے افراد اور اپنے شاگردوں کوبھی ‘آپ، تسیں’ صیغیہ جمع برائے ادب سے مخاطب کرتے تھے ، یا بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔
حافظ صاحب مجھے فرمانے لگے الیاس بیٹاآپ کا وہ واقعہ میں اپنے درس اور تقاریر میں اکثر و بیشتر بیان کرتا ہوں جب آپ کالج چھوڑ کر گھر سے بھاگ کر مدرسے آئے تھے اور آپ کے والد صاحب جو کہ پولیس میں تھے واپس لینے مدرسے پہنچ گئے تھے ۔پھر آپ ساتھ نہیں گئے بلکہ چھپ گئے ۔ دینی تعلیم مکمل کر کے ہی گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے والد صاحب کو بھی اللہ نے سمجھ دے دی۔ وہ کیسے سمجھے اس کے درمیان ایک واقعہ ہے جو مجھے ابھی اچھی طرح مستحضر نہیں ہے اپنا قصہ دوبارہ سنائیں تاکہ میں بہتر انداز سے اس کو بطورتحریض اور موٹیویشن بیان کروں کہ سکول و کالج کے بچوں کے لیے ایک ترغیب ہو۔
میں نے اختصار سے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اپنا جامعہ میں آنے تعلیم حاصل کرنے کا واقعہ سنایا، اس میں ٹرننگ پوائنٹ یہ تھا کہ میری تعلیم کے دوران والدہ صاحب رحمہ اللہ کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیاتھا جس کے بعد اللہ نے انکی خدمت کرنے کا موقع دیا جس میں راتوں کو بھی جاگنا ہوتا تھا۔ اس پر اللہ نے ان کا دل نرم کر دیا اور دین کی محبت دل میں ڈال دی۔
مجھ سے میری بات سسنے کے بعد حافظ صاحب فرمانے لگے میں تو اب سامعین کو کہتا ہوتا ہوں دیکھو اب وہ طالب علم اپنی تحریر و تقریر سے دین کا کام کرتا ہے لاکھوں لوگ اس کی تحریر پڑھتے ہیں، حافظ صاحب کا اشارہ جماعت کے میگزین اور جریدے کی طرف تھا کہ جس کی ادارت ایک عرصہ تک میرے ذمہ رہی۔ اس موقع پر دینی و ملکی مسائل بھی زیر بحث رہے جس پر استاد محترم نے ہماری ذہنی سازی کی اور دل میں موجود موہومات کو دور کرنے کا سامان پیدا کیا ، پھر ہم نے جب ان سے رخصت کی اجازت چاہی تو محترم حافظ صاحب علیہ الرحمہ ہمارے روکنے کے باوجود پھر سے ہمیں الوداع کرنے باہر والے گیٹ تک چل کر آئے اور جاتے ہوئے گلے لگا کر ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کیا۔
آہ ۔۔۔ آج وہ استاذ ، وہ مربی ، وہ خیرخواہ ، وہ ہمدرد ، وہ روحانی باپ ہم میں نہیں ہے۔ ان میں علمی ، تدریسی ، تالیفی ، دعوتی، ابلاغی خوبیاں تو بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ وہ کس قدر علم کے سمندر اور حکمت و ادب کے پہاڑ تھے ، وہ اس دور کے ابن حجر تھے ایسی اور دیگر کئی خوبیاں جن کا شائد ہمیں ادراک ہی نہ ہوان سب کا حظ وافر اللہ نے انہیں ودیعت کیا تھا۔ لیکن ایک پہلو جسے میں نے محسوس کیا اور مشاہدے کی بنا پر بیان کیا ایسی خوبیاں سینکڑوں افراد نے حافظ صاحب کی ذات میں نوٹ کی ہوں گی۔ دعا ہے کہ اللہ ان کی بشری لغزشوں سے اعراض فرما کر ان کی اسلام کے لیے کاوشوں کو قبول فرما کر اعلیٰ جنتوں میں جگہ دے ہمیں اپنے استاد محترم کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔ ان کی دینی وراثت جو ہم تک پہنچی ہے اس کو آگے لے کر چلیں اللہ ان کے مشن پر چلنے کی توفیق دے۔
الیاس حامد