فصیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ کی حالات زندگی

استاذ گرامی مولانا ابو نعمان بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں، اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسے اوصافِ حمیدہ سے متصف کیا ہے جو ہر طالب علم کے لیے مشعلِ راہ ہیں، آپ نے مرکز علوم اسلامیہ ستیانہ بنگلہ میں 1991ء میں تدریس کا آغاز کیا اور ابھی تک 35 برس ہوچکے وہیں مصروف تدریس ہیں، چونیاں میں لمبا عرصہ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے رہے ہیں اور ابھی کچھ وقت سے مرکز قاسم شہید تاندلیانوالہ میں جمعہ پڑھا رہے ہیں، الاحسان ٹی وی پر ہفتہ وار سوال جواب کی نشست کرتے ہیں، گزشتہ رمضان المبارک میں یہ نشست روازنہ ہوا کرتی تھی، ایک آن لائن انسیٹیوٹ کے تحت میراث کی تدریس کر چکے ہیں اور صحیح البخاری کی تدریس جاری ہے، رمضان المبارک میں دورہ تفسیر میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے ہیں، دورہ تفسیر کی تدریس میں آپ شیخ المشائخ حضرت مولانا عبداللہ امجد چھتوی اور استاذ العلماء حضرت مولانا عبد العزیز علوی رحمھما اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ شریک رہے ہیں اور اس وقت دورہ تفسیر میں آپ کے ساتھ حضرت شیخ مختار احمد مدنی حفظہ اللہ شریک تدریس ہوتے ہیں، ستیانہ بنگلہ دار الافتاء کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے سپرد ہے۔ مدیر التعلیم اور مدیر الامتحانات بھی آپ ہی ہیں ۔ بروز اتوار بعد نماز عصر طلبہ کے تبلیغی وفود آپ کی زیر سرپرستی روانہ ہوتے ہیں،
جامعہ میں آپ کی لکھی ہوئی چار کتب سیرت النبی، اصول تفسیر، مفتاح الاصول اور اسلامی قانون وراثت شامل نصاب ہیں۔ اسلامی قانون وراثت وفاق المدارس السلفیہ طلبات کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ جہاں تک بات ہے آپ کے گھرانے کی تو بلاشبہ سب کے سب اہل خیر ہیں آپ کے دو بیٹے ہیں بڑے بیٹے نعمان بشیر سلمہ اللّٰہ الفرقان کالج اوکاڑہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے ہیں اور دوسرے بیٹے حمران کچھ عرصہ قبل تحفیظ القرآن کی تدریس کے لیے سعودی عرب جاچکے ہیں اور اللّٰہ نے آپ کو دو بیٹیوں سے نوازا ہے اور وہ دونوں بخاری شریف کی حافظہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم میں بھی انتہائی فائق ہیں۔ ان سب بچوں کی ماں بھی سینکڑوں طالبات کو قرآن و سنت کی تعلیم دے چکی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
شیخ محترم سے میرا تعلق کئی طرح سے وابستہ ہے دوران طالب علمی کتاب النحو کے چند ابتدائی اسباق، فقہ السنۃ، تفسیر بیضاوی، فقہ المواریث، السراجی، صحیح مسلم، صحیح البخاری جلد دوم اور دورہ تفسیر میں مکی سورتوں کی تفسیر جیسے اہم اسباق کا درس حضرت شیخ ہی سے لیا ہے۔ کئی برس ہوچکے کہ آپ کے زیر سایہ تدریس بھی جاری ہے اور اب اللّٰہ کے فضل سے مجھے شیخ محترم کے پڑوس میں مسکنت کا شرف بھی حاصل ہے۔ ہم نے اس مکمل عرصہ میں آپ کو انتہائی نیک، شرائع اسلامیہ کا پابند، خیر کا متلاشی، حق کا رفیق اور نیکی کا حریص پایا ہے، آپ علم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت پر بھی توجہ فرماتے ہیں، وقت کی پابندی آپ کا شعار ہے، دن اور گھنٹے تو بہت بڑی بات ہے آپ منٹ اور سیکند کی بھی قدر کرتے ہیں۔
آپ کے حالات زندگی بہت دلچسپ ہیں جنہیں پڑھ کر طلب علم کی جستجو، محنت کا شوق اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت آپ کی شخصیت کے متعلق چند مفید معلومات درج کی جا رہی ہیں۔

نام ونسب، تاریخ ولادت اور خاندانی تعارف:
نام: بشیر احمد بن خوشی محمد بن فتح محمد بن عمر دین
پیدائش: 13 مئی 1966ء
کل چار بھائی ہیں باقی تینوں آپ سے بڑے ہیں۔ عبد المجید بھائی 2000ء میں فوت ہوگئے تھے اسی طرح چار ہمشیرہ ہیں، تین آپ سے بڑی اور ایک چھوٹی ہے۔ بڑی بہنوں میں سے ایک بہن 1990ء میں وفات پا گئی تھیں۔
چک نمبر 2/1L تحصیل رینالہ خورد، ضلع اوکاڑہ میں آبائی رہائش ہے۔
حصول تعلیم:
عصری تعلیم:
ابتدائی عصری تعلیم تو گاؤں کے پرائمری اسکول میں ہی حاصل کی پھر چھٹی کلاس سے میٹرک تک گورنمنٹ ہائی اسکول رینالہ خورد میں حاصل کی۔

تعلیمی ذوق:
والد صاحب پڑھے لکھے نہ تھے ۔بھائی بھی خاص تعلیم نہ رکھتے تھے۔ اسکول کے ساتھ ہی باغ تھا، والد صاحب باغبانی اور زراعت کا کام کرتے تھے۔ ان کے کام میں اکثر ان کا ہاتھ بٹانا ہوتا تھا۔ اس لیے گھر میں تعلیمی ماحول نہ تھا لیکن اس کے باوجود ابتداء ہی سے حصول تعلیم کا بہت ذوق وشوق تھا۔ اسی ذوق کا نتیجہ تھا کہ ہر کلاس میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے چنانچہ جب آپ آٹھویں کلاس میں پہنچے تو اسی سال مڈل کے لیے بورڈ کا امتحان لازمی قرار دیدیا گیا۔ اوکاڑہ اس وقت ضلع ساہیوال کا حصہ تھا اور ملتان بورڈ میں شامل تھا۔ ملتان بورڈ ان دنوں کافی سخت سمجھا جاتا تھا آپ کی کلاس کے چوبیس طلباء میں سے فقط چھ پاس ہوئے۔ ان چھ میں آپ بھی شامل تھے آپ کا تعلیمی ذوق ہی تھا کہ ٹیوشن وغیرہ کا بندوبست اور ماحول نہ ہونے کے باوجود میٹرک کے لیے سائنس میں داخلہ لیا حتی کہ اسکول آنے جانے کے لیے کوئی مستقل سواری بھی نہ تھی ۔ ایک پرانا سا سائیکل اور وہ بھی خراب ہونے کی صورت میں پانچ کلومیٹر پیدل ہی آتے اور پھر واپسی بھی جاتے۔

خداداد قوت یاداشت:
حفظ اور یادداشت دو الگ الگ خوبیاں ہیں کسی میں حفظ کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں یادداشت کی اللہ نے آپ کو کسی چیز کو حفظ کرنے کی نسبت یاداشت کی صلاحیت حد درجہ قوی عطا فرمائی تھی یہ ہی وجہ ہے کہ بچپن کے کئی واقعات لمحہ بہ لمحہ بعینہ یاد ہیں۔ آپ ابھی چھ سال کی عمر میں تھے اسکول پہلی کلاس میں داخل ہوئے تھے کہ والدہ محترمہ رحلت فرما گئیں آپ کو وہ سب درد بھرا منظر یاد ہے کہ سب سے پہلے کس نے اطلاع دی۔ اسکول سے کس حالت میں گھر پہنچے، گھر پہنچے تو عجیب منظر تھا، گاؤں کے ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ ان کی زندگی ختم ہوچکی ہے ، بڑے بھائی جلدی سے رینالہ خورد گئے وہاں سے ڈاکٹر کو ساتھ لائے ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور وفات کی تصدیق کر دی۔ یہ سب آپ کو اچھی طرح یاد ہے۔ آپ پہلی کلاس میں تھے سالانہ امتحان ہوا اس کی مکمل تفصیل آپ کے ذہن نشین ہے یہ بھی یاد ہے کہ دو غلطیاں آئی تھیں۔تختیوں پر امتحان لیاگیا تھا۔ ماسٹر مشتاق احمد صاحب نے 45 لکھوایا جسے آپ نے 45 کے الٹ یعنی 54 لکھ دیا۔ اردو املاء میں انہوں نے ایک لفظ سوئی لکھوایا تھا یہ لفظ لکھا تو درست ہی تھا مگر قلم سے روشنائی زیادہ لگ گئی جس سے یہ موٹا ہوگیا اس کو کاٹ کر اس کے اوپر ہی صحیح کرکے لکھ دیا۔تازہ لکھا ہوا اس وقت تو چمک رہا تھا۔ محسوس نہ ہوا مگر بعد میں پڑھنا دشوار ہوگیا ان دو غلطیوں سے دو نمبر کٹ گئے اور بیس میں سے اٹھارہ نمبر آئے اور سوئم پوزیشن رہی۔

آپ کی عصری تعلیم کی اسانید درج ذیل ہیں:

1۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول رینالہ خورد، ملتان بورڈ 1982ء

2۔ ایف اے، 1985ء

3۔ بی اے 1988ء

4۔ ایم اے اسلامیات، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور 1991ء

5۔ ایم اے عربی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور 1994ء

ابتدائی دینی تعلیم:
ابتداء میں نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن پاک گاؤں کے معروف استاد مولانا محمد شفیع صاحب سے پڑھا۔ گاؤں کے اکثر لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے ان کے پاس ہی بھیجتے تھے۔ مولانا صاحب اہل حدیث تھے جبکہ آپ بریلوی تھے۔ابتداء میں تو گاؤں میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ گاؤں میں سب سے پہلے اختلافات بریلوی عالم عبد الحفیظ قادری صاحب نے کیے تھے۔ آپ کا سارا خاندان بریلوی تھا۔
قادری صاحب کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ آپ ادھر پڑھتے ہیں تو آپ کے بہنوئی کو کہا تمہارا رشتہ دار وہابی مولوی کے پاس پڑھتا ہے اسے ہمارے ہاں بھیجا کرو۔ بار بار کہنے اور اصرار کی وجہ سے آپ کا ذہن بھی اس طرف مائل ہوگیا، اپنے دو دوستوں کو ساتھ لیا اور قادری صاحب کے پاس پڑھنے چلے گئے وہاں پڑھائی تو برائے نام تھی زیادہ تر وقت کھانے پینے اور قاری صاحب کی خدمت میں گزرتا تھا۔تقریباً اڑھائی تین سال ادھر رہے مگر سبق وہیں تھا جہاں سے شروع کیا تھا ہر چار پانچ ماہ بعد استاد بدل جاتا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد آپ کو احساس حقیقت تنگ کرنے لگا کہ ہم نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اور شرمندگی کا بوجھ بھی کہ دوبارہ مولانا شفیع صاحب کے پاس کیسے جایا جائے۔ آخرکار اپنے دونوں ساتھیوں کو لے کر چار وناچار دوبارہ مولانا شفیع صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے جرمانہ، سزا، ڈانٹ ڈپٹ کچھ نہیں کیا فقط اتنا کہا کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، میں نے آپ سے کچھ لینا دینا نہیں صرف قرآن ہی تو پڑھانا ہے، پھر مکمل ناظرہ قرآن مجید ان سے پڑھا۔

ناظرہ مکمل ہونے کے بعد انہوں نے چار پانچ لڑکوں کا ایک گروپ بنادیا اور قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کر دیا۔ آپ باقاعدگی سے ترجمہ پڑھتے رہے جبکہ دیگر طلبہ بعض اوقات حاضر نہیں ہوتے تھے حتی کہ کسی وقت آپ کو تن تنہا ترجمہ پڑھنا پڑتا تھا مگر آپ نے باقاعدگی سے کلاس کا اہتمام کیا۔ اسکول کے سالانہ پیپر ہوتے تب بھی آپ ترجمہ کلاس پڑھتے تھے جس روز ریاضی کا پیپر تھا مغرب کے بعد ایک ساتھی کے ساتھ تیاری کرتے رہے اس روز ذہن میں خیال آیا کہ آج ترجمہ کلاس سے چھٹی کی جائے اور پیپر کی تیاری کی جائے لیکن جوں ہی عشاء کی اذان ہوئی ذہن تبدیل ہوگیا کہا ممکن ہے امتحانات میں آسانی ترجمہ پڑھنے کی برکت سے ہوتی ہو۔ اس لیے ترجمہ نہیں چھوڑنا۔ چنانچہ اس دن بھی ترجمہ پڑھا اور ریاضی میں دیگر مضامین کی نسبت زیادہ نمبر آئے۔ میٹرک اور ترجمۃ القرآن دونوں مکمل ہوگئے آپ نے ترجمہ شوق اورلگن سے پڑھا تھا اسی لیے آپ کو خوب اچھی طرح یاد تھا اور سوچ وفکر پر دینی رنگ غالب تھا۔ مولانا شفیع صاحب نماز کے بارے انتہائی حساس تھے اس لیے ابتداء ہی سے آپ کو نماز کی عادت ہوگئی۔ اپنے باغ میں ہی مخصوص جگہ پر پودے لگا کر چھوٹی سی مسجد بنالی تھی وہیں نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور کبھی اکیلے ہی اذان کہہ کر جماعت کروالیا کرتے تھے۔

میٹرک کے بعد:
اس وقت آپ کے علاقے میں یہ بات مشہور تھی کہ میٹرک کے بعد اگر پولی ٹیکنیکل کالج ساہیوال سے ڈپلومہ کر لیا جائے تو بڑا اچھا کام مل جاتاہے دیگر طلباء کی طرح آپ نے بھی ادھر اپلائی کیا اس موقع پر چند عجیب معاملات پیش آئے۔
جن طلباء کے والدین خود تعلیم یافتہ تھے انہوں نے اپنے بیٹوں کوکالج میں داخل کروایا اور پولی ٹیکنیکل میں بھی اپلائی کر دیا کہ اگر ادھر داخلہ نہ ہوا تو کالج میں تعلیم جاری رہے گی۔ اس بات کی طرف آپ کی توجہ دلانے والا کوئی نہیں تھا۔ آپ نے فقط پولی ٹیکنیکل میں اپلائی کیا۔ اسی انتظار میں دوسرے کالج میں داخلہ نہ لیا اور ان دنوں رینالہ خورد میں کوئی کالج بھی نہیں تھا۔ اوکاڑہ میں ہی کالج تھا۔ تمام کالجز کے داخلے بند ہونے کے بعد پولی ٹیکنیکل کا داخلہ شروع ہوا۔ عین موقع پر پتہ چلا کہ داخلہ کے لیے ڈومیسائل کا ہونا ضروری ہے۔ ساہیوال کے کئی چکر لگا کر ڈومیسائل بنوایا مگر جس دن ڈومیسائل ملا وہ داخلے کا آخری دن تھا۔ آپ کا داخلہ نہ ہوسکا، دیگر کالجز میں داخلے بند ہوچکے تھے اور کوئی سفارشی بھی نہیں تھا جو داخلہ دلوا سکے وہ سال اسی طرح کے کاموں میں گزرا۔ لیکن یہ سب انسانی تدبیریں ناکام ہو رہی تھیں جو بعد ازاں تدبیر الٰہی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

دینی تعلیم کی طرف رجحان اور جامعہ ابی بکر کی طرف سفر:
اسی سال کے دوران ایک دن گاؤں کے ڈاکٹر خوشی محمد رحمہ اللہ نے نماز عصر کے بعد آپ سے پوچھا پڑھائی کا کیا پروگرام ہے؟ کہا ابھی اس بارے سوچ رہا ہوں، کہنے لگے سنا ہے کراچی میں سعودی عرب کی طرف سے ایک دینی مدرسہ ہے جو بہت ہی بہترین اور اچھا تعلیمی معیار رکھتاہے، انہوں نے مزید بتایا کہ قریبی گاؤں 18/1-L کے کچھ طلباء وہاں پڑھتے بھی ہیں۔آپ نے تہیہ کر لیا کہ وہاں ضرور جاؤں گا۔ اگلے دن سائیکل لے کر ان کے گاؤں پہنچے وہاں دو تین لڑکوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ماحول،پڑھائی اور نظام سب کچھ اچھا ہے اور ہم فلاں تاریخ کو جائیں گے۔ کراچی جانے کا پختہ ذہن بن گیا، چند روز بعد دوبارہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ پوچھا کیا پروگرام ہے؟ اگر آپ نے ملازمت کرنی ہے تو ملازمت ہے، محکمہ صحت کی طرف سے دیہی علاقہ جات کے لیے آفیسر کی ضرورت ہے۔ اس آفیسر کے تحت دس پندرہ آدمی ہوتے ہیں۔ موسم گرما میں ان آدمیوں سے سپرے کروا کر باقی سارا وقت آرام کا ہوتا تھا۔ اس کی تنخواہ بھی مناسب تھی۔ آپ نے کہا میں نے اب دینی تعلیم حاصل کرنی ہے اس لیے ملازمت کی ضرورت نہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے بھی مزید ترغیب دلائی کہ واقعی دینی تعلیم ہی بہتر ہے۔ آپ یہ ہی حاصل کریں۔

دینی تعلیم کا سفر:
ساتھ والے گاؤں 18/1-L کے لڑکوں سے جامعہ کا ایڈریس لے کر جامعہ کے نام خط لکھا جس میں اپنی تعلیمی اسانید کی کاپی اور جوابی لفافہ بھیجا۔ پانچ چھ دن بعد جواب آیا کہ آپ فلاں تاریخ کو پہنچ جائیں۔ انہیں لڑکوں سے رابطہ کیا، محمد اعظم بھائی تھے ان کے ساتھ پروگرام بنا انہوں نے کہا کہ آپ فلاں تاریخ کو اتنے بجے رینالہ خورد اسٹیشن پر پہنچ جائیں لاہور سے ٹرین آئے گی ہم اس پر جائیں گے۔ مقررہ تاریخ سے پہلے دو تین مرتبہ رابطہ ہوا تو وہی وقت طے پایا۔ گھر والوں کو تسلی دی کہ رینالہ تک اکیلا ہوں اس سے آگے گروپ کی شکل میں جائیں گے۔ گھر سے اکیلے ہی روانہ ہوئے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ قبل اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ سخت بارش شروع ہوگئی اور عصر سے عشاء تک بارش جاری رہی، اسٹیشن پر کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا تھا ساتھ جانے والے ساتھیوں کو بھول ہوگئی، انہوں نے ایک دوسری ٹرین پر جانے کا پروگرام بنالیا جو اوکاڑہ اسٹیشن پر اسٹاپ کرتی تھی وہ تمام اوکاڑہ اسٹیشن پر چلے گئے اور آپ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا ان کے ذہن میں نہ رہا جبکہ آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اسٹیشن کی لوکیشن پہ کھڑے ہوکر بھی آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ کراچی کس طرف ہے اور کس گاڑی پہ جاناہے حالانکہ میٹرک کی ہوئی تھی لیکن دوران تعلیم اسکول جانا اور سیدھا واپس آجانا آپ کا معمول تھا۔ رینالہ شہر کا بھی زیادہ علم نہ تھا۔ گرمی کا موسم تھا عشاء کی اذان بھی ہوگئی بارش کی وجہ سے کوئی سواری بھی نہیں نظر آرہی تھی۔ آخر کار ایک آدمی اسٹیشن پر آیا، اس سے پوچھا کہاں جاناہے اس نے کہا میں فوج میں ملازم ہوں اور حیدرآباد جاناہے۔ آپ نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ مجھے علم نہیں کراچی کس سمت واقع ہے البتہ دوران گفتگو یہ بتادیا کہ میں نے مدرسہ پڑھنے جاناہے، میرے ساتھ کچھ لوگ تھے لیکن وہ پہنچ نہیں سکے، اب گھر واپس چلا گیا تو مدرسہ نہیں جاسکوں گا میں تو گھر والوں کو بڑی مشکل سے سبز باغ دکھا کر آیا ہوں۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی آپ کے والد محترم کا باغ کا کام تھا، دو ملازم بھی رکھے تھے لیکن پھر بھی کام مکمل نہیں ہوتا تھا اس لیے ان کو میری ضرورت محسوس ہوتی تھی پھر ان دنوں آم کا پھل تیاری میں تھا۔ بڑے حیلے بہانے لگا کر اجازت لی تھی اب اگر میں گھر چلا گیا تو مدرسہ نہیں جاسکتا۔ آپ نے یہ ساری بات اس کو سنائی اور کہا کہ مجھے اپنے ساتھ ہی رکھنا۔ اس نے حامی بھر لی۔ گاڑی آنے سے چند منٹ پہلے اس نے کہا جاؤ ٹکٹ لے آؤ، آپ کو چھوٹا خیال کرکے ٹکٹ نہیں دی گئی، یہ دیکھ کر فوجی آپ کے ساتھ گیا کہا یہ بچہ میرے ساتھ ہے آپ اس کو ٹکٹ دے دیں۔ اس نے غالباً 84 روپے کا ٹکٹ دیا۔ آپ کے پاس ایک چھوٹا سا بیگ اور بستر تھا جس میں ایک تکیہ، دری اور بیڈ شیٹ تھی۔ ٹرین آئی سامان اٹھایا اور فوجی کے ساتھ ہی ٹرین پر سوار ہوگئے۔ لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ فرسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس کیا ہوتی ہے۔ فوجی فرسٹ کلاس میں سوار ہوکر وہاں سے سیکنڈ کلاس میں چلا گیا آپ کو اس چیز کا علم نہیں تھا آپ وہیں رہے اور ویسے بھی رش بہت زیادہ تھا آگے جانا کافی دشوار تھا۔ بہت مشکل سے کھڑے ہونے کی جگہ ملی، پانچ چھ آدمے اور بھی تھے جو سیکنڈ کلاس کے ٹکٹ پر فرسٹ کلاس میں کھڑے تھے۔ ابھی اوکاڑہ گزرا تھا کہ چیکر آیا اس نے ان سب کی ٹکٹیں لے کر جیب میں ڈال لیں۔ تھوڑی دیر گزری ایک بولا باؤ جی مہربانی کرکے میری ٹکٹ واپس کر دیں۔ آہستہ آہستہ سب نے مطالبہ شروع کر دیا آپ بھی ان میں شامل تھے مگر آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کیا معاملہ چل رہا ہے وہ رعب دار آواز میں پوچھتا کہاں سے بیٹھے ہو اور ہر شخص کو بیس یا پچیس روپے جرمانہ کرکے ٹکٹ واپس کر دیتا۔ آپ کو دس روپے جرمانہ کیا اور ٹکٹ واپس کرکے سب سے کہا جلدی سے اپنے ڈبے میں چلے جاؤ تب پتہ چلا کہ کیا ماجرا بناہے۔ دوسرے ڈبے میں جاکر بیٹھے۔ اب آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کراچی کون سا شہر ہے اور کب آئے گا۔ کسی بھی شہر گاڑی رکتی آپ اپنا سامان تیار کر لیتے کہیں یہ ہی نہ کراچی ہو۔ پھر بورڈ پڑھنے سے پتہ چلتا کہ یہ توکوئی اور شہر ہے۔ 22 گھنٹے بعد گاڑی کراچی پہنچی۔ اب یہ نہیں علم تھا کراچی کہاں اترنا ہے۔ اس قدر علم تھا کہ خط پر جامعہ ابی بکر گلشن اقبال نمبر 5 درج تھا۔ سواریوں سے بات چیت کی تو پتہ چلا سٹی اسٹیشن پہ اترنا ہے۔ وہاں جاکر سب لوگ اتر جائیں گے، گاڑی خالی ہوجائے گی۔ ساتھ والی سواری نے کہا کہ جہاں میں اتروں وہیں اتر جانا۔ ٹرین سے اُترنے کے بعد آپ نے پہلی بار کراچی کی سرزمین پر قدم رکھا اور کراچی شہر دیکھا۔ اس نے بتایا کہ تھوڑا آگے جاؤ گے تو موڑ سے گاڑی ملے گی، وہ صدر جائے گی پھر صدر سے U4/U5 بس پر بیٹھ جانا وہ گلشن جائے گی۔ بس پر سوار ہوکر صدر پہنچے(صدر کراچی کا مرکزی مقام ہے) وہاں تلاش بسیار کے بعد U4بس ملی۔ آپ نے کنڈیکٹر سے پوچھا یہ بس گلشن اقبال جائے گی؟ کنڈیکٹر پٹھان تھا وہ کہنے لگا : ‘‘گلشے گلشے گلشے’’ پورا لفظ نہیں کہتا تھا۔ اس نے آپ کو پکڑ کر دروازے کے قریب بٹھا کر دوسری طرف سواریاں لینے گیا آپ یہ کہتے ہوئے نیچے اُتر آئے کہ یہ گلشے کا کہہ رہا ہے جب کہ میں نے گلشن اقبال جاناہے۔ کنڈیکٹر دوبارہ چکر لگا کر آیا کہنے لگا بیٹھو بیٹھو جائے گی گلشے گلشے۔ دو تین بار ایسا ہی ہوا پھر ایک سواری سے پوچھا تو اس نے یقین دہانی کرائی کہ یہ گلشن اقبال جائے گی تب آپ سوار ہوئے اور پتہ چلا کہ پٹھان صاحب کے گلشے سے مراد گلشن اقبال ہی ہے، پھر یہ نہیں علم تھا کہ گلشن اقبال میں کس اسٹاپ پر اُترناہے؟ ساتھ والی سواریوں سے کہا کہ جامعہ ابی بکر جاناہے۔ جامعہ ابی بکر اس وقت اتنا معروف نہ تھا کسی کو نہ پتہ چلا کہ جامعہ ابی بکر کدھر ہے؟ ایک آدمی نے کہا ادھر ایک مدنی مسجد آئے گی۔ اس کے قریب روڈ پر بورڈ لگا ہوا ہے ممکن ہے وہی ہو۔ آپ نے کنڈیکٹر کو کہا مدنی مسجد اُتار دینا۔ اسے خیال نہ رہا گاڑی آگے گزر گئی، تھوڑی دیر بعد پھرکہا میں نے مدنی مسجد اترنا تھا، اس نے کہا وہ تو کافی پیچھے رہ گئی ہے، وہاں اترنے کے بعد کسی سے پوچھا اس نے کہا واپس چلتے رہو آجائے گی۔ پوچھتے پوچھتے ایک کلومیٹر چل لیا تھا عشاء کی اذان شروع ہوچکی تھی ایک آدمی نے کہا جہاں سے اذان کی آواز آرہی ہے وہی مدنی مسجد ہے، چلتے چلتے مسجد پہنچے تو وہاں لکھا تھا۔
یا رسول اللہ، سوچا یہ تو بریلویوں کی مسجد ہے۔ واپس روڈ پر آئے اور مشکل سے تلاش کرتے کرتے جامعہ کا بورڈ نظر آیا۔ اس کی طرف چلتے گئے اور جامعہ کے دروازے پر پہنچے آثار بتارہے تھے کہ یہ گیٹ عام استعمال کا نہیں، لیکن دستک دے دی، بار بار دستک کے باوجود کوئی جواب نہ آیا۔ اپنا سامان اٹھایا اور جامعہ کے اردگرد چکر لگایا، دوسرا دروازہ نظر آیا جہاں سے آمد ورفت جاری تھی تو پتہ چلا کہ پہلے والا گیٹ پرانا دروازہ ہے اور اکثر بند رہتاہے۔ گیٹ والے کو کہا کہ رینالہ خورد کے محمد اعظم کو ملناہے۔ گیٹ والے نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی پہنچے ہیں اس نے میرا سامان اٹھایا اور ان کے کمرے میں لے گیا۔ وہ سب دیکھ کر حیران رہ گئے، معذرت کرنے لگے اور کہنے لگے ہمیں تو آپ کا بالکل خیال نہیں رہا تھا ابھی آپ کو دیکھ کر یاد آیا ہے۔ دو دن بعد انٹرویو ہوا اور داخلہ ہوگیا۔
کلاس میں پہلے روز فضیلۃ الشیخ عطاء اللہ ساجد صاحب ( شارح سنن ابن ماجہ) رحمہ اللّٰہ نے عقیدہ توحید کے عنوان پر اردو میں درس دیا اس کے بعد عربی میں کلاسیں شروع ہوگئیں، اور باقاعدہ دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ 1984ء میں آپ کا داخلہ ہوا۔ 1987ء میں الثانویہ کی کلاس مکمل کی، آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی جاری رکھی 1985ء میں ایف اے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔

تصنیف کا آغاز:

جامعہ ابی بکر میں تعلیم کے دوران لکھنے کا ذوق اس طرح پیدا ہوا کہ جامعہ کے استاد فضیلۃ الشیخ شبیر احمد بن نور حفظہ اللہ جو کہ شبیر احمد نورانی کے نام سے مشہور ہیں وہ ایک بار نیو سعید آباد میں فضیلۃ الشیخ پیر بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پاس گئے ان سے کہا آپ کا کوئی پرانا کام ہو جو منظر عام پر نہیں آیا وہ عنایت کیجیے گا تاکہ اسے مرتب ومہذب کرکے طبع کرایا جائے۔ انہوں نے ایک بہت پرانا رجسٹر دیدیا جو غالباً 1967ءمیں لکھا تھا۔ اس میں دو مضمون زیادہ اہم تھے ایک قرآن خوانی کی شرعی حیثیت اور دوسرا عیدین کے احکام
شبیر صاحب نے قرآن خوانی کی شرعی حیثیت والا مضمون آپ کو دیا اور عیدین کے احکام والا عبد الحی صاحب کو دیا وہ آپ کے ہم کلاس تھے۔ وہ اس وقت ڈاکٹر اور این ای ڈی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ اور کہا ان مضامین کو صاف کرکے اچھی طرح مرتب کریں بہت سی عربی عبارتیں ہیں جو شاہ صاحب نے ویسے ہی لکھ دی ہیں ان کا ترجمہ بھی کریں۔ وہ شاید اس دور کے چند فتاوی تھے جو شاہ صاحب سے پوچھے گئے تھے۔ عبد الحی صاحب نے تواس کو سامنے رکھ کر دو تین دن میں اسی طرح لکھ کر واپس کر دیا اور کوئی خاص تبدیلی بھی نہ کی جس کی وجہ سے وہ قابل اشاعت بھی نہ ہوا۔ لیکن آپ نے یہ سوچا کہ استاد محترم نے طلبہ میں سے میرا انتخاب کیا ہے میں بھی اس کا حق ادائیگی ادا کروں گا۔ آپ نے بہت زیادہ محنت کی۔ اہل علم کے کئی اقوال تھے ان کا ترجمہ کیا، اس پر کچھ اضافہ بھی کیا آپ اس وقت دوسری کلاس میں تھے ترجمہ میں کچھ دشواری بھی ہوتی تھی مگر اساتذہ اور سینیئر طلباء سے راہنمائی لیتے رہے اور مسلسل لگے رہے۔ کئی ماہ اس کام پر لگے اس دورانیے میں کئی بار استاد محترم نے کہا کہ جلدی کریں، بہت دیر کر دی ہے آپ نے۔ البتہ جب کام کرکے ان کو دکھایا تو بہت خوش ہوئےاور بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے وہ مضمون دو تین اساتذہ کو چیک کروایا۔ اساتذہ کی غلطیوں پر نشاندہی کی وجہ سے دوبارہ سہ بارہ لکھنا پڑا۔ اگرچہ اس وقت کافی مشقت ہوئی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ابتدائی تربیت تھی بعد میں جس کے بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ اس سارے مرحلے سے گزر کر اس میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ استاد محترم نے کہا کہ آپ یہ مضمون الشیخ بدیع الدین شاہ صاحب کو چیک کروا کے آئیں تاکہ ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ شائع ہو اورکمی بیشی بھی کرنی ہو تو وہ بھی کر لیں۔

پیر بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ سے ملاقات:

استاد محترم ابو نعمان بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ میں نیوسعید آباد ان کے مرکز میں مغرب کے وقت پہنچا۔ شاہ صاحب پروگرام پہ گئے تھے، ان کی لائبریری کے انچارج نے اپنے پاس ٹھہرایا، شاہ صاحب رات بارہ ایک بجے آئے اور صبح فجر کے بعد ملاقات ہوئی۔ ناشتہ بھی ان کے ساتھ ہی کیا۔ بالکل سادہ انداز کوئی تکلف نہیں تھا۔ روٹی چنگیر میں رکھی اور ایک برتن میں کدو کا سالن ڈالا ہوا تھا لیکن ان کی سادگی میں بھی بہت مزا تھا ۔ وہ مضمون شاہ صاحب نے بڑی توجہ سے پڑھا، ڈیڑھ دو گھنٹے پڑھنے میں لگے۔ اس مضمون میں حدیث کی ایک عبارت تھی۔

اهْتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدٍ
شاہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا تھا ’’اللہ کا عرش بھی خوش ہوا‘‘ میں نے اس پر نشان لگایا تھا کیونکہ یہ ہی سنا تھا کہ اس کا ترجمہ ہے۔
سیدنا سعد کی موت پر عرش الٰہی بھی کانپ اٹھا۔ میں نے پوچھا اس کا معنی کانپنا کرتے ہیں۔ شاہ صاحب جتنے عظیم شیخ تھے اگر یہ ہی کہہ دیتے کہ یہ ہی (خوشی والا) معنیٰ درست ہے تو یہ ہی کافی تھا اور میں اس وقت دوسری کلاس میں تھا لیکن انہوں نے اسی پر اکتفاء نہ کیا حالانکہ گرمی کا موسم تھا لائبریری سے باہر بیٹھے تھے۔
بلکہ اپنے لائبریرین کو آواز دی اور فرمایا کہ فلاں الماری کے فلاں خانے سے لغت کی فلاں فلاں کتاب لے آؤ۔ تاج العروس، لسان العرب، مجمع بحار الأنوار، النهاية لابن الأثیراور دیگر کئی کتب منگوائیں، تختی پر لائن لگا دی۔ اور کمال یہ ہے کہ وہ کتاب کھولتے یا تو بعینہ وہی لفظ نکل آتا یا ایک آدھ ورق آگے پیچھے کرتے جبکہ ہم نے کوئی لفظ نکالنا ہو تو آگے پیچھے ورق گردانی کرتے رہتے ہیں۔ وہ لفظ نکالتے جاتے اور دکھاتے جاتے کہ دیکھیں اور پڑھیں اس وقت عربی پر زیادہ عبور نہ تھا البتہ مفہوم سمجھ آگیا کہ اس کا معنی خوش ہونا ہی لکھا ہے اور اچھی طرح تسلی ہوگئی۔ شاہ صاحب کو اس قدر استحضار اور تجربہ تھا اتنی بڑی لائبریری میں ہر کتاب کی جگہ کا علم تھا اور جب کتاب کھولتے تو مطلوبہ مقام اور لفظ نکل آتا۔

کتاب کی تقدیم اور اشاعت:
اب اس کے مقدمے کی باری تھی۔
مقدمہ لکھ کر استاد محترم کو چیک کروایا لیکن استاد محترم نے بھی مقدمہ لکھ رکھا تھا میرا لکھا ہوا مقدمہ چیک کیا سرخ قلم سے کئی مقامات پر نشانات لگائے اور کہا تمہارے الفاظ زیادہ ہیں یا میرے؟ لیکن انہوں نے حوصلہ افزائی کی کہ میرے پاس وقت نہیں تھا سرسری نظر سے جلدی میں لکھا تھا آپ نے مجھ سے زیادہ اچھا لکھا ہے آپ ہی کا مقدمہ لگاناہے۔ انہوں نے میرا لکھا ہوا مقدمہ ہی شامل کیا اور اپنی جیب سے خرچ لگا کر کتاب شائع کروادی۔ یہ دوسری کلاس کے اختتام کا زمانہ تھا تیسری کلاس کے شروع میں کتاب چھپ کر آچکی تھی۔ اساتذہ کے بھی بہت اچھے تأثرات تھے۔ اس سے لکھنے کا ذوق بھی پیدا ہوا اور جامعہ میں اچھا تعارف بھی ہوگیا۔

احکام الجنائز کے ترجمہ پر نظر ثانی:
ان ہی ایام میں شیخ شبیر صاحب علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ‘‘احکام الجنائز’’ کا ترجمہ کر رہے تھے انہوں نے پہلے بھی کئی اساتذہ کرام سے نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کروائی تھی ایک دن نورانی صاحب نے آپ کو کہا کمرے میں چلو اور کچھ ورقے پڑے ہیں ان کو دیکھو کہ کوئی غلطی تو نہیں ہے، آپ نے پندرہ بیس صفحے چیک کیے ان میں کئی غلطیاں نکالیں جب نورانی صاحب آئے تو دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ میں نے خود کئی مرتبہ پڑھا فلاں فلاں اساتذہ کرام نے بھی پڑھا لیکن ہمیں غلطیاں نظر نہیں آئیں پھر نورانی صاحب کے کہنے پہ آپ نے مکمل کتاب چیک کی جبکہ اس وقت آپ تیسری کلاس میں تھے۔ نورانی صاحب کی خصوصی شفقت جاری رہی اور دیگر اساتذہ بھی راہنمائی کرتے رہے جس سے لکھنے کا ذوق بڑھتا رہا لیکن تیسری کلاس کے بعد نورانی صاحب جامعه ابي بكر چھوڑ گئے بعد ازاں سعودی عرب چلے گئے اور ان دنوں واپس پاکستان آ چکے ہیں۔
کراچی میں ڈاکٹر عبد الجبار صاحب ہیں انہوں نے پوچھا کہ اہل حدیث کیسے ہوئے؟ آپ نے واقعہ بتایا تو وہ کہنے لگے اسے لکھ دیں ہم چھپوادیں گے آپ نے لکھ دیا اس کا نام رکھا۔
میں نے راہ ہدایت کیسے پائی؟
بعد میں اس کے چار پانچ ایڈیشن چھپے ان میں اضافے بھی ہوتے رہے پھر رسائل میں بھی مضامین لکھنا شروع کردیئے۔

جامعہ ابی بکر میں اضافی سرگرمیاں:

کراچی میں دیوبندیوں کی ایک مسجد میں نماز تراویح کے بعد ڈاکٹر اسرار صاحب دورہ تفسیر کرواتے تھے یہ کلاس تراویح کے بعد شروع ہوتی اور سحری تک جاری رہتی۔ تراویح میں جو قرآن پڑھا جاتا اس کا ترجمہ وتفسیر بیان کرتے تھے، نورانی صاحب کی ترغیب پر اس دورے میں شرکت کی۔ 1985ء میں جامعہ ابی بکر میں دورہ نحو کا اہتمام ہوا تھا آپ نے اس میں بھی شرکت کی۔
کراچی میں سیر وسیاحت کے تمام مقامات دو دو تین تین مرتبہ دیکھے۔

دوران تعلیم تبلیغی سرگرمیاں:
آپ جامعہ میں دوران تعلیم تبلیغی پروگرام پر جایا کرتے تھے۔ آپ ڈاکٹر عبد الجبار صاحب اور چار پانچ طلباء کے ساتھ ہر جمعرات کو کراچی کے کسی نہ کسی علاقے میں اور مہینے میں ایک دو مرتبہ سندھ کے کسی علاقے میں جاتے تھے۔ تبلیغی جماعت والوں کی طرح سفر کی ضروریات اپنی ہی ذمہ داری پر ہوتی تھیں۔ اس میں ایک تو انفرادی طریقہ ہوتا تھا یا اجتماعی۔ انفراداً یوں کہ کسی اسٹاپ، دکان، چوک پر کوئی دو چار آدمی کھڑے ہوتے ڈاکٹر صاحب کسی ایک کو کہہ دیتے کہ ان کو تبلیغ کرو۔ اس طرح عادت بن گئی تھی کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جو بات آتی تھی سنا دیتے تھے بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ اسٹاپ پر بس کے انتظار میں لوگ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کسی ایک ساتھی کو بھیج دیتے وہ جاکر بات شروع کرتا باقی ساتھی آس پاس کچھ فاصلے پرکھڑے ہوجاتے جب وہ بلند آواز سے بات شروع کرتا تو آس پاس کھڑے طالب علم سامع کی حیثیت سے اس کی طرف جمع ہونا شروع ہوجاتے ان کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی متوجہ ہوتے اور بعض اوقات تو بڑا مجمع لگ جاتا۔ اس طرح قرآن وسنت کی دعوت زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی۔
آپ کو شروع سے ہی اس بات کا شدت سے احساس ہورہا تھا کہ اپنے آبائی گاؤں میں دینی تعلیم کا کافی فقدان ہے۔ جب بھی تعطیلات میں گاؤں آتے تو ہم جولی لڑکوں کو تعلیم پر آمادہ کرتے رہتے ایک دن جناب مقبول احمد ولد سید محمد سے ملاقات ہوئی وہ دینی ذہن رکھتے تھے مگر بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا مکمل خاندان اسی نظریہ کا حامل تھا۔ انہیں دینی تعلیم کی اہمیت سنائی اور ترغیب دلائی۔ شاید رحمت الہی سے قبولیت کی گھڑی تھی کہ مقبول احمد صاحب آمادہ ہوگئے اور اپنے والد مرحوم اور بھائیوں کے نا چاہتے ہوئے بھی چند دنوں بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ (کراچی) میں پہنچ گئے، آپ نے کافی خاطر تواضع کرکے ان کا دل لگانے کی کوشش کی مگر وہ اہنے عقیدہ اور طریقہ نماز پر پابند رہے غیرمطمئن حالت میں ڈگمگاتے رہے چونکہ منشاء الٰہی میں ہدایت تھی اس لیے چند ماہ بعد مسلک حق پر گامزن ہوگئے اور مطمئن ہوکر تعلیم میں کمر بستہ ہوگئے۔ اور جامعہ میں کلیۃ الحدیث کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ ام القریٰ (مکہ مکرمہ ) میں مزید تعلیم حاصل کی۔ آج وہ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ کے نام سے معروف ہیں جو جامعہ ابی بکر میں سینئر اساتذہ میں شامل ہیں اور کراچی یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں اور مجلہ اسوہ حسنہ کے بانی و مبانی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ اس طرح گاؤں کے ایک ساتھی محمد الیاس مہر بھی آپ کے ترغیب دلانے پر جامعہ میں تعلیم کیلئے آئے اور مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد عرصہ دراز سے مختلف سکولوں میں دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔

اساتذہ کی خدمت:
شروع سے ہی آپ کو اساتذہ کی خدمت کا ذوق رہا ہے، آپ کے دو دوست اور کلاس فیلو تھے جناب یوسف ضیاء صادق آبادی جو اس وقت پروفیسر ہیں اور محمد رفیق بہاولپوری جو ان دنوں اسکول ٹیچر ہیں۔ آپ تینوں کا آپس میں اساتذہ کی خدمت کرنے میں مسابقہ کا سا ماحول تھا ایک دوسرے سے چھپ کر اساتذہ کی خدمت کرتے۔ جب دیکھتے کہ اساتذہ کمرے میں نہیں ہیں تو ان کے دھونے والے کپڑے چپکے سے اٹھا کر لے جاتے اور دھو کر استری کرکے جب اساتذہ کمرے میں نہ ہوتے تو کپڑے رکھ جاتے۔ اور تینوں کی کوشش ہوتی کہ کہیں دوسرا اس کارِ خیر میں مجھ سے آگے نہ نکل جائے۔ بعض طلباء کو اساتذہ کہتے بھی تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتے۔ جب اساتذہ کو اس کا پتہ چل گیا تھا پھر خود ان سے کپڑے لے جاتے تھے اور اساتذہ سے بھی خصوصی شفقت وپیار کا تعلق بن گیا۔ استاد محترم فرماتے ہیں کہ حافظ منشاء صاحب رحمه الله بزرگ اور نیک استاد تھے۔
اب عارف والا چک نمبر 149 ای۔ بی میں ان کا طالبات کا مدرسہ بھی ہے وہ ہمیں کوئی سبق تو نہیں پڑھاتے تھے لیکن ان کی نیکی وتقویٰ کی وجہ سے ہمیں ان سے بڑی محبت وعقیدت تھی۔ ان کی بہت زیادہ خدمت کرتے تھے اور وہ بھی بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی اور وہ ہمیں اپنے بیٹے ہی سمجھتے تھے۔ اپنے ہر کھانے میں ہمیں شریک کرتے تھے جب ان سے کوئی کہتا کہ حافظ صاحب نصیحت فرمادیں تو وہ فرماتے بیٹا یہ دعا کیا کرو کہ اللہ اپنے دین کے لیے منتخب کر لے۔ خود بھی جب دعا کرتے تو یہ دعا ضرور کرتے، وہ فرمایا کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ منتخب کر لے تو سب کچھ مل جاتاہے یعنی اللہ تعالیٰ اس انسان کو ذہانت، کام کرنے کا طریقہ، اور اسباب ووسائل سب کچھ دے دیتا ہے۔ ان کی یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی، میں اکثر اپنی دعا میں یہ دعا مانگتا تھا ممکن ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دین حنیف کی خدمت کا موقع میسر کیا ہو ورنہ میرے کئی کلاس فیلو جو مجھ سے زیادہ ذہین تھے ان کو اس طرح دین کا کام کرنے کے مواقع کم ملے، یہ سب اساتذہ کی خدمت کا صلہ اور ان کی دعائیں ہیں۔

فضیلۃ الشیخ ظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ
جامعہ ابی بکر کی پڑھائی بھی اور ماحول بھی اچھا تھا، فضیلۃ الشیخ ظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ اس وقت حیات تھے وہ پڑھائی اور نظام کی بہتری کے لیے بہت کوشش کرتے تھے جس چیز کا بھی مطالبہ ہوتا فوراً پورا کرتے۔ استاد محترم بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ دوران تعلیم کئی بار ان کے پاس جاکر تعلیمی حوالے سے اپنے مسائل ان کے سامنے رکھتے کہ فلاں سبق شروع نہیں ہوا یا فلاں مسئلہ درپیش ہے تو وہ فوراً اس کا حل کرتے۔ جب آپ کی دوسری کلاس تھی ایک دفعہ وہ سفر کے لیے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے آپ نے ان کو بتایا کہ آدھا سال گزر چکا ہے ابھی ہماری صرف کی کتاب ہی نہیں آئی وہ گاڑی سے نیچے اُتر آئے اور کہا کیا واقعی ایسا ہے؟ ایک استاد صاحب کو بلایا اور پوچھا کہ یہ دوسری کلاس کی صرف کی کتاب ابھی نہیں آئی۔ استاد صاحب نے بتایا کہ کافی تلاش بسیار کی ہے مگر بازار سے مل ہی نہیں رہی۔ البتہ فوٹو کاپی کروائی جاسکتی ہے۔ ظفر اللہ صاحب نے کہا اگلے دو دن میں ہر صورت کتاب مہیا کریں خواہ فوٹو کاپی کرائیں یا بازار سے خرید کر لائیں۔
ان کی طبیعت میں کچھ سختی تھی لیکن طلباء سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایبٹ آباد کے ایک بابا جی حجام تھے ان کو مقرر کیا ہوا تھا وہ جمعرات کو آتے اور چھت پر طلباء کی حجامت کرتے۔ طلباء کی باری کے مطابق قطار لگی ہوتی۔ ایک دفعہ بال کٹوانے کی باری آپ کی تھی کہ الشیخ ظفر اللہ صاحب چھت پر آئے پوچھا کس کی باری ہے؟ ایک طالب نے بتایا کہ اس بھائی کی باری ہے تو ظفر اللہ صاحب نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ : شیخ صاحب! مجھے جلدی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں مونچھیں ٹھیک کروا لوں؟
حالانکہ وہ مدیر الجامعہ تھے اور دوسری طرف ابتدائی طالب علم مگر پھر بھی انہوں نے اجازت طلب کرنا ضروری سمجھا۔ اللھم اغفر له وارحمه

جامعہ ابی بکر سے جلالپور پیر والا کا سفر:
جامعہ ابی بکر میں گرائمر کی پڑھائی میں قدرے کمزوری تھی۔ جلالپور سے عبد الغفور نامی ایک لڑکا جامعہ ابی بکر پڑھنے گیا، اس سے اور دیگر ذرائع سے آپ کو پتہ چلا کہ جلالپور پیر والا میں پڑھائی بہت اچھی ہے۔ آپ کا تین ساتھیوں سمیت پروگرام بنا کہ کسی اور جامعہ میں جاکر تعلیم حاصل کی جائے۔ ان میں ایک یوسف ضیاء صاحب دوسرے محمد رفیق صاحب تھے یہ دونوں آپ کے کلاس فیلو ہیں۔ اور تیسرے ڈھیسیاں کے سلطان ناصر صاحب تھے یہ ایک کلاس پیچھے تھے۔ انہوں نے آپ کو سفیر بنایا کہ چھٹیاں ہورہی ہیں ان چھٹیوں میں جامعات خصوصاً جامعہ محمدیہ جلالپور، جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور جامعہ رحمانیہ لاہور کا وزٹ کرو جو جامعہ آپ کو پسند آئے سب وہاں داخلہ لیں گے۔ آپ ان میں سے ایک ادارے میں گئے طلباء سے کچھ واقفیت نکالی وہاں جس کلاس میں داخلہ لینا تھا اس میں بیٹھے۔ تفسیر جلالین کا سبق پڑھانے کے لیے استاذ صاحب تشریف لائے۔ سورۃ کہف کی مجمع البحرین والی آیت پر سبق تھا وہ کلاس میں نقشہ لے کر آئے تاکہ طلباء کو دکھائیں کہ مجمع البحرین کہاں واقع ہے۔ لیکن وہاں طلباء بہت عجیب تھے۔ جب استاذ صاحب پریڈ پڑھا کر باہر نکلے تو ایک دوسرے سے مذاق کرنے لگے کہ دیکھا؟ نقشہ سمجھ آیا کہ نہیں؟ آپ کو طلباء کے اس روپے پر رنج اور دکھ ہوا، تین چار پریڈ پڑھے ہر استاد جب باہر نکلتا تو اس کے الٹے نام لینا شروع کر دیتے، ہر استاد کا عجیب سا نام رکھا ہوا تھا۔

تین چار شرارتی قسم کے لڑکے تھے وہ استاد کا کوئی کمزور پہلو نوٹ کرتے بعد میں مذاق اُڑانا شروع کر دیتے۔ آپ نے ان سے کہا یہ تمہارا کیا طریقہ کار ہے؟ استاد پڑھا کر باہر جاتا ہے تو تم مذاق اُڑانا شروع کر دیتے ہو یہ طریقہ درست نہیں ہے ان میں سے ایک نے کہا تین چار دن میں تم بھی ایسے ہی بن جاؤ گے۔ آپ کو اس بات سے انتہائی نفرت ہوئی کہ اگر میں نے بھی ایسے ہی ہوجانا ہے تو آنے کا فائدہ؟ وہاں سے سعودیہ جانے کا امکان زیادہ تھا مگر یہ ماحول دیکھ کر اس ادارے میں داخلے کا پروگرام بالکل ختم ہوگیا۔

جلالپور کے بارے سن رکھا تھا کہ وہاں کی پڑھائی تو اچھی ہے مگر سہولیات نہیں ہیں۔ دوردراز کا علاقہ ہے دیہاتی ماحول ہے۔ کراچی سے لاہور منتقل ہونا تو آسان تھا مگر کسی دیہات میں جا بسنا کافی مشکل تھا، لیکن آپ نے سوچا کہ باقی بڑے اداروں کا بھی شاید یہ ہی حال ہو لہذا اور کہیں نہیں جانا۔ جلالپور ہی جانا ہے آپ نے جلالپور کا ہی انتخاب کیا اور ایک استاد محترم سے مشورہ بھی کیا انہوں نے کہا اگر واقعی آپ نے پڑھنا ہے تو جلالپور چلے جائیں، پھر اس بات پر اتفاق ہوا کہ چوتھی کلاس کے بعد پانچویں کلاس جلالپور میں ہی پڑھنی ہے۔ رمضان کے بعد گھر سے ملتان پہنچے۔ ملتان سے جلالپور جانے والی آخری گاڑی ملی۔ گاڑی بھی ایسی تھی کہ شاید ہی کوئی اسٹاپ چھوڑتی ہو، چلتے چلتے شجاع آباد جاکر رک گئی پھر وہاں سے چلی تو ساڑھے گیارہ بجے جلالپور پہنچی۔ نیا اڈہ جلالپور سے کافی باہر تھا وہاں اترنے کے بعد یہ نہیں پتہ تھا کہ ادارہ کس طرف ہے؟ وہاں کے لوگوں سے پوچھا، آپ اردو میں بات کرتے تھے مگروہ خالص سرائیکی میں جواب دیتے تھے اس لیے کچھ سمجھ نہ آتا تھا البتہ اتنا سمجھ آیا کہ مدرسہ کافی دور ہے، ایک کنٹین والے آدمی نے کہا کہ آپ ابھی مدرسہ نہیں پہنچ سکو گے۔ میں یہ بینچ باہر رکھ دیتاہوں اس پر سوجاؤ اور صبح مدرسے چلے جانا۔ آپ نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کیا، بستر سر کے نیچے رکھا بیگ کو بازو میں ڈالا اور سوگئے۔ مگر بینچ انتہائی چھوٹا تھا اس لیے جب بھی کروٹ بدلی تو نیچے گر گئے، گرمی بھی کافی زیادہ تھی اور مچھر بھی آپ پر فدا ہونے کو تھا، اوپر کپڑا اوڑھتے تو گرمی تھی کپڑا اتارتے تو مچھر کاٹنے لگتا۔ رات اسی طرح گزری، کبھی بیٹھ جاتے، کبھی لیٹ جاتے بالآخر صبح کی اذان ہوئی تو مدرسہ کی طرف چل پڑے بتانے والے نے تو کہا تھا بہت دور ہے مگر پوچھ پوچھ کر آدھے گھنٹے میں پہنچ گئے، اس وقت جامعہ درج ذیل نام سے مشہور تھا “”مولانا سلطان محمود رحمۃ اللہ علیہ کا مدرسہ “”

جلالپور میں داخلہ اور حصول تعلیم:
وہاں پہنچ کر دیکھا مسجد میں تمام طلبہ نماز فجر کے بعد مطالعہ میں مصروف ہیں جبکہ رمضان کے بعد پڑھائی شروع ہوئی، دوسرا یا تیسرا دن تھا۔ تمام طلباء خاموشی سے مطالعہ میں مصروف ہیں کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا۔ مولانا عبد الرشید ریاستی صاحب بھی نگرانی کے لیے موجود تھے۔ یہ ماحول دیکھ کر تسلی ہوئی کہ یہاں سے ضرور کچھ ملے گا، جامعہ ابی بکر میں تو مطالعہ کا یہ ماحول نہ تھا چھٹی ہوتی تو اکثر طالب علم آزاد ہوتے رات کو جس کا دل کرتا پڑھ لیتا۔

محمد رفیق کا ایک رشتے دار تھا محمد شعیب جامی وہ جلالپور پڑھتے تھےآج کل ملتان ہوتے ہیں، وہ دو تین مرتبہ محمد رفیق کے پاس جامعہ ابی بکر آئے تھےتو آپ کی بھی اس سے سلام ودعا تھی، اس نے دیکھ کر آپ کو پہنچان لیا، چپکے سے اٹھا ملاقات کی بیگ پکڑا بستر اٹھایا اور جامعہ کی رہائش گاہ کی طرف چل پڑا۔ جلدی سے سامان رکھا تولیہ اور صابن لاکر دیا اور خود جلدی سے واپس مطالعہ میں پہنچ گیا۔ آپ کو یہ چیز بہت ہی زبردست لگی کہ یہ درمیانے درجے کا طالب علم ہے پھر بھی اس کو اتنا احساس ہے کہ ماحول کو خراب نہیں کرنا، پڑھائی کو متأثر نہیں ہونے دینا اور استاد کی ناراضگی سے بھی بچنا ہے۔ سوچا کہ واقعی یہاں منظم انتظام ہوگا اس طرح کی مزید چند چیزوں کو دیکھ کر آپ کا دل مطمئن ہوگیا کہ یہیں پڑھنا ہے اور کہیں نہیں جانا۔ انٹرویو کے بعد داخلہ ہوا، آپ کا ذہن چوتھی کلاس پڑھنے کا تھا اساتذہ کا بھی یہ ہی مشورہ تھا مگر دوسرے دو ساتھیوں کی وجہ سے پانچویں میں داخلہ لیا۔ وہ ساتھی زیادہ دیر نہ پڑھ سکے کیونکہ وہاں گرمی بہت سخت تھی، پانی بھی کڑوا تھا البتہ پینے کے لیے پانی باہر سے آتا تھا۔ رہائش بہت سادہ قسم کی تھی، کھانا بھی سادگی والا تھا جبکہ جامعہ ابی بکر میں تو بڑے شاہانہ انداز میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے انتظامات تھے اس لیے وہ دونوں تقریباً چھ ماہ بعد چھوڑ گئے تھے لیکن آپ پڑھتے رہے اور سطان ناصر صاحب بھی پڑھتے رہے، ابھی وہ فوت ہوچکے ہیں۔

انا للہ وإنا إلیہ راجعون
انہوں نے تیسری کلاس میں داخلہ لیا تھا اور آخر تک پڑھتے رہے۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ یا جامعہ محمدیہ جلالپور؟

مولانا شبیر احمد نورانی صاحب حفظہ اللہ سعودی عرب چلے گئے وغ وہ شرعی سرکاری عدالت میں اردو مترجم رہے اور ان دنوں واپس پاکستان آ چکے ہیں۔ آپ کے ان سے گہرے تعلقات بنے ہوئے تھے جب جامعہ ابی بکر میں تھے تو انہوں نے خط لکھا کہ آپ تینوں اپنے کاغذات بھیج دیں جامعہ اسلامیہ میں آپ کا داخلہ کروا دوں گا، سب نے کاغذات بھیج دیئے، جلالپور آنے کے بعد آپ اکثر دعا کیا کرتے تھے کہ

یا اللہ! میرا داخلہ نہ ہو۔
کیونکہ داخلہ ہوگیا تو یہ پڑھائی چھوڑ کر جانا پڑے گا یعنی جلالپور کی پڑھائی سے اس قدر متأثر ہوچکے تھے۔ پہلے بہت زیادہ کمی رہ گئی تھی اس لیے اضافی ٹائم لگا کر کسی استاد سے نحو پڑھی کسی سے صرف۔ مولانا عبد الرشید ریاستی حفظہ اللہ نے خصوصی شفقت کی وہ اضافی وقت دیتے تھے ان کی طبیعت اگرچہ تھوڑی سی سخت تھی کبھی ناراض بھی ہوجاتے تھے مگر پھر بھی اضافی وقت میں ان سے کتاب الصرف پڑھی۔ جلال پور میں آکر صرف ونحو اور حل عبارت کا پتہ چلا گرائمر کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے چھٹیوں میں کسی نہ کسی استاد سے ٹائم لے لیتے اور کمی کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ ایک دفعہ رمضان میں آپ کا پروگرام بنا کہ مولانا نذیر احمد صاحب آف سمیجھ آباد ملتان سے ہدایۃ النحو پڑھی جائے۔ آپ سے ایک کلاس پیچھے مولانا بلال صاحب پڑھتے تھے وہ بھی ساتھ شامل ہوگئے، بلال صاحب کی ہمشیرہ سمیجھ آباد میں رہتی تھیں ان کی رہائش اور کھانے کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن آپ کے لیے یہ مسئلہ تھا سمیجھ آباد کی مسجد کے متولی عبد اللطیف کپڑا فروش تھے ان سے رابطہ کیا وہ غریب آدمی تھے مگر انہوں نے ذمہ داری لے لی۔انہوں نے کہا آپ مسجد میں رہائش رکھ لیں ادھر نمازیں پڑھائیں دروس دیں۔ کھانا میرے گھر سے آجایا کرے گا۔ مولانا نذیر احمدصاحب کا گھر مسجد سے کافی دور تھا۔ رمضان سے چند دن پہلے گئے اور تقریباً 20 رمضان کو ہدایۃ النحو مکمل پڑھ لی۔ مولانا صاحب بھی مدرسے کے چندہ کے لیے اکثر جاتے تھے اس لیے صبح وشام تو ان سے ملاقات نہیں ہوتی تھی لیکن دن کے نو دس بجے ملاقات ہوتی تھی اور دو تین مرتبہ چکر لگانے کے بعد ملتے تھے وہ بھی کبھی آرام کررہے ہوتے تھے ، کبھی کسی کام کے سلسلے میں گھر موجود نہیں ہوتے تھے، لیکن پھر بھی انہوں نے وقت نکال کر کتاب مکمل کروائی، وہ جو بھی پڑھاتے تھے آپ لکھ لیا کرتے تھے لیکن مولانا نذیر احمد صاحب کو علم نہ تھا آخری ایام میں جب انہوں نے دیکھا تو فرمانے لگے اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ اتنا شوق رکھتے ہو اور اتنا اہتمام کرتے ہو تو میں اور زیادہ محنت سے پڑھاتا۔

جلالپور میں تبلیغی وتربیتی پروگرام:
آپ کا ذہن تبلیغ وتربیت کے لیے پہلے سے تیار ہوچکا تھا مزید دس بارہ طلباء آپ کے ساتھ مل گئے، طلباء کی تربیت کا ہفت روزہ پروگرام رکھا، طالب علموں کو اکٹھا کرکے ان کی نماز، تہجد، اشراق اور تکبیر اولیٰ وغیرہ کی حاضری چیک کرتے۔ جس کے لیے فارم بناکر دیئے ہوئے تھے، جسے وہ یومیہ پُر کرتے اور ہفتہ کے آخر میں چیک کرواتے تھے۔ جمعرات کو اس پر تبصرہ بھی ہوتا، کچھ ساتھی اس کے حق میں نہیں تھے جن میں دار السلام والے مولانا عبد العظیم اسد حفظہ اللہ بھی شامل تھے وہ کہتے تھے یہ ریاکاری ہے، تم حاضری لگاتے ہو جو طلباء یہ کرتے ہیں وہ ریاکاری کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کام ترک کردیا مگر آپ جمعرات کو انہیں ساتھیوں اور دیگر چند طلباء کو ساتھ لے کر اپنے خرچ پر کھانا تیار کرتے، کسی گاؤں میں تبلیغ کے لیے نکل جاتے، انفراداً گشت کرتے، تبلیغ کرتے اور مغرب کے بعد مسجد میں پروگرام کا وقت دے دیتے، وضو، نماز وغیرہ کا پریکٹیکل کرکے دکھاتے اگلے دن جمعہ پڑھا کر واپس آجاتے، تین چار ماہ یہ سلسلہ چلا۔ مولانا عبد الجبار صاحب حفظہ اللہ جو اس وقت دار السلام میں ہوتے ہیں انہوں نے مولانا سلطان محمودرحمہ اللہ کو بتادیا کہ یہ طلباء اس طرح کرتے ہیں انہوں نے کلاس میں کافی سخت تبصرہ کیا کہ یہ کام نہیں کرنا چاہیے ان کا ذہن تھا کہ طالب علم کو دوران تعلیم سوائے پڑھنے کے اور کچھ نہیں کرنا چاہیے چونکہ ہم تبلیغ پر جاتے تھے اور وہ بھی اپنے ذاتی خرچ پہ، لیکن انہوں نے روک دیا اس لیے اس وقت ان کی بات مناسب نہ لگی بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہی درست تھا کیونکہ جمعرات سے جمعہ تک تبلیغ میں رہتے۔ کپڑے دھونے والے ہوتے، اسباق دہرانے والے ہوتے اور دوران ہفتہ دقت پیش آتی، اس لیے انہوں نے بہتر فیصلہ کیا تھا۔

تحریری مقابلہ:
جامعہ میں تحریری مقابلہ ہوا کہ جو اچھا مضمون لکھے گا اس کو چھپوایا جائے گا، جامعہ میں تعداد بھی زیادہ نہ تھی اور طلباء کو بھی تحریر کا اتنا شوق بھی نہ تھا، آپ نے ’’توکل السالکین‘‘ کے عنوان پر کتاب لکھی استاد محترم مولانا محمد رفیق اثری صاحب رحمہ اللہ نے مقدمہ لکھا اور کتابی صورت میں چھپوا دیاگیا۔

ایک دفعہ تحصیل کی سطح پر سیرت النبی ﷺ کے عنوان پر جماعت اسلامی کے زیر اہتمام تحریری مقابلہ ہوا، اخبار میں اشتہار دیاگیا، آپ نے مضمون لکھا جس کے بعد میں اخبار پر ہی رزلٹ آیا، دوستوں نے اخبار لاکر دکھایا کہ آپ کی دوم پوزیشن آئی ہے۔ دوستوں کو مبارکباد کی مٹھائی کھلادی، مگر جماعت اسلامی کی طرف سے آپ کو کوئی انعام نہ ملا اور انتظامیہ کی طرف سے جو وعدے تھے وہ بھی پورے نہ ہوئے البتہ آپ کے ذوق تحریر میں اضافہ ہوا۔

حصول علم کے لیے محنت اور جہد مسلسل:
جلالپور میں پانچویں کلاس میں داخلہ لیا تھا۔ پانچویں کلاس میں نحو کی کوئی کتاب نہیں تھی البتہ اگلے سال ملا جامی شامل نصاب تھی اور پچھلے سال میں کافیہ، کافیہ مولانا عبد الرشید ریاستی صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ آپ پیریڈ کا کچھ وقت بچاکر ریاستی صاحب سے سبقاً سبقاً کافیہ پڑھی اور احاطۂ تحریر میں بھی لائے۔ دوران تعلیم معمول تھا کہ جس کتاب کا جو بھی سبق ہو اس کو رف طور پر لکھ لیتے بعد ازاں اس کو رجسٹر یا کتاب کے حاشیہ پر لکھ لیتے۔ مصنفین کے حالات زندگی لکھتے اور ہر کتاب کے لیے الگ رجسٹر بناتے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ دوران تدریس مجھے ان چیزوں کا بہت فائدہ ہوا، اساتذہ نے ذخیرہ کتب میں کثیر جدوجہد اور مطالعہ کرکے پڑھانا ہوتا ہے اسی لیے اساتذہ کے بتائے ہوئے کئی نکات ایسے ہوتے ہیں جو کتب میں نہیں ملتے۔

آپ نےالسراجی پڑھی تو اس کا ترجمہ وامثلہ اور مفہوم رجسٹر پر حل کرکے لکھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں دورہ تدریب الدعاۃ والمبلغین کو سراجی پڑھانے کی باری آئی تو آپ نے تدریس کے اول سال ہی میں اس کی ذمہ داری قبول کر لی چونکہ ذوق وشوق سے پڑھی اور لکھی تھی اس لیے کوئی دقت پیش نہ آئی، یہ ہی وجہ بنی کہ علم وراثت میں شوق ورغبت پیدا ہوئی۔

جلالپور میں چونکہ صحیح البخاری اور بلوغ المرام شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ پڑھاتے تھے آپ نے چند طلباء کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا اور شیخ محترم سے درخواست کی کہ ہم بھی بلوغ المرام پڑھنا چاہتے ہیں اس پر شیخ محترم نے فجر کے بعد بلوغ المرام پڑھانی شروع کر دی ، یوں آپ نے محدث جلالپوری رحمہ اللہ سے صحیح البخاری اور بلوغ المرام ایک ساتھ پڑھیں۔

کلاس سے چھٹی کرنا:
مکمل تعلیمی دورانیے میں نہ اسکول سے چھٹی کرتے تھے اور نہ مدرسہ سے، جب آپ کی والدہ فوت ہوئیں تو آپ کو اسکول میں ہی اطلاع ملی تھی اگلے دن اسکول سے چھٹی کی اور تیسرے دن بستہ پکڑا اور اسکول چل دیئے مگر بڑے بھائی نے دیکھا تو منع کر دیا کہ آج نہ جاؤ۔ اسی طرح مدرسہ کی تعلیم کے دوران بھی کبھی چھٹی نہیں کی طبیعت خراب ہوتی تو پھر بھی کلاس میں حاضر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ جلالپور سے تین ماہ بعد جمعرات اور جمعہ کی دو چھٹیاں ہوئیں گھر ملنے کے لیے آئے اس وقت سب سے بڑے بھائی کے بیٹے یعنی آپ کے بھتیجے جاوید کی ایک جگہ منگنی ہوئی تھی۔ بھائی نے الگ کرکے بات چیت کی اور بتایا کہ جہاں جاوید کی منگنی کی ہے اس لڑکی کی چھوٹی بہن مدرسہ بھی پڑھی ہوئی ہے اور اسکول کی تعلیم بھی ہے آپ کے معیار کی ہے اور میں نے آپ کے لیے پسند کی ہے تو آپ میرے ساتھ چلیں اگر آپ کو پسند آئے تو آپ کے لیے اس لڑکی کا رشتہ پوچھ لیں گے؟ آپ نے کہا اگر میں آپ کے ساتھ چلا گیا تو مجھے ہفتے کی چھٹی کرنی پڑے گی اور بخاری کا پیریڈ رہ جائے گا، آپ کو اچھا لگتاہے تو مجھے بھی قبول ہے، بڑےبھائی کے اصرار کے باوجود آپ وہاں نہیں گئے۔

اسی طرح آپ کی بڑی بہن کی شادی ہوئی تو اس وقت آپ چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے آپ نے شادی والے دن بھی چھٹی نہ کی اس روز بھی اسکول گئے اور واپس آکر شادی میں شرکت کی حالانکہ گھر میں کوئی ترغیب دلانے والا بھی نہ تھا، اور آج بھی آپ چھٹی کے معاملہ میں انتہائی محتاط ہیں اور انتہائی مجبوری کی صورت میں چھٹی کرتے ہیں۔

تلفظ کی درستگی:
جامعہ میں فجر کی نماز کے علاوہ باقی نمازیں شیخ سلطان محمود صاحب پڑھایا کرتے تھے فجر کی نماز کوئی طالب علم پڑھایا کرتا تھا۔ ایک دن شیخ اللہ یار صاحب نے فجر کے وقت آپ کو جماعت کے لیے آگے کر دیا شیخ سلطان محمود صاحب بھی پیچھے کھڑے تھے۔ نماز کے بعد شیخ صاحب نے آپ کو براہ راست کچھ نہ کہا مولانا اللہ یار صاحب نے آپ کو آگے کیا تھا اس لیے ان کو کہا کہ اس کے فلاں فلاں لفظ کا تلفظ درست نہیں ہے۔ اللہ یار صاحب نے آپ کو بتایا تو آپ نے قریبی مسجد رحمانیہ میں جہاں حفظ کی کلاس ہوتی تھی قاری صاحب سے ٹائم لے کر پڑھنا شروع کر دیا آپ اس مسجد میں درس بھی دیا کرتے تھے چھوٹے بجے آپ کو دیکھ کر ہنستے تھے کہ یہ ہمیں درس دیتے ہیں اور خود نورانی قاعدہ پڑھتے ہیں مگر آپ نے کوئی عار اور شرم محسوس کیے بغیر محنت جاری رکھی اور تین ماہ کے عرصہ میں تلفظ درست کر لیا۔

بی اے
کراچی میں بی اے کا داخلہ بھیج دیا تھا مگر جب امتحان آیا تو تب جلالپور میں پڑھتے تھے اور جس روز بی اے کا امتحان تھا اس سے اگلے دن جامعہ میں بھی امتحان تھا۔ کافی لیت ولعل کے بعد چھٹی ملی، امتحان کے لیے کراچی پہنچے تو پتہ چلا کہ کسی ہنگامے کی وجہ سے امتحان دو ہفتے مؤخر کر دیا گیا ہے فوراً واپس آئے اگلے دن جامعہ کے پیپر شروع تھے۔ پہلے ذہن تھا کہ جامعہ کے امتحان نہیں دینے اس لیے کوئی خاص تیاری نہیں کی تھی اور ایسے ہی امتحان دیدیا لیکن پھر بھی اول پوزیشن آئی۔ بحمد اللہ تعالی

تربیتی پروگرام:
رحمانیہ مسجد میں آپ نے تربیتی پروگرام شروع کیا تھا ہر دوسرے دن درس دیا کرتے تھے جس کا اکثر موضوع نماز کے احکام اور ان کا عملی طریقہ ہوتا تھا۔

دوران طالب علمی تنظیمی تعلقات:
دوران طالب علمی آپ جماعتی ساتھیوں کو اتنا نہ جانتے تھے وہاں ایک خواجہ نامی شخص تھا وہ اسی جامعہ کا فارغ تھا وہ پڑھنے کے دوران بھی پڑھائی میں کم دلچسپی رکھتا تھا زیادہ تر تنظیمی ذہن رکھتا تھا۔ جب جامعہ سے فارغ ہوا تو اس نے یوتھ فورس بھی بنائی تھی جبکہ مولانا سلطان محمود صاحب رحمہ اللہ تنظیم سازی کے خلاف تھے خصوصاً طالب علمی کے زمانہ میں تنظیم سازی یا تنظیم سے تعلق رکھنے کے سخت مخالف تھے۔

ایک بار یوں ہوا کہ ڈاکیا آیا اس نے آپ کو جامعہ کی ڈاک دی کہ یہ طلباء اور دیگر افراد کو پہنچا دینا۔ اس میں خواجہ کا خط بھی تھا، ظہر کی نماز کے بعد آپ نے جلدی سے اُٹھ کر خواجہ کو سلام کیا اور اسکو اس کا خط دے دیا۔ شیخ سلطان محمود صاحب رحمہ اللہ نے سلام لیتے ہوئے دیکھ لیا مگر خط پکڑاتے ہوئے نہ دیکھا انہوں نے سمجھا شاید ان کے آپس میں تعلقات ہیں۔ آپ سے اگلی کلاس میں مولانا عبد الکریم صاحب پڑھتے تھے جو بعد میں مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ پڑھاتے بھی رہے۔ شیخ صاحب نے ان کو بلایا اور کہا کہ یہ جو لڑکا جامعہ ابی بکر کراچی سے آیا ہے اس کے فلاں خواجہ کے ساتھ تعلقات ہیں کیونکہ اس نے نماز کے فوراً بعد اس سے سلام لیا ہے تم اسے سمجھاؤ کہ اس خواجہ نے نہ خود صحیح طرح پڑھا ہے اور نہ ہی اس کو پڑھنے دے گا بلکہ آوارہ بنادے گا۔ مولانا عبد الکریم صاحب نے آکر آپ سے پوچھا کہ آپ کے خواجہ سے کیسے تعلقات ہیں؟ آپ نے فوراً کہا کہ مجھے تو صرف اس کے نام کا پتہ ہے انہوں نے استاد محترم کی بات بتائی اس پر آپ نے ان کومکمل وضاحت پیش کر دی اور حقیقت حال سے آگاہ کر دیا اور ساتھ یہ تأکید کی کہ شیخ محترم کو اصل حقیقت سے ضرور آگاہ کریں، انہوں نے جاکر شیخ محترم کو مکمل بات بتائی، لیکن جامعہ سے فارغ ہونے تک آپ کے دل میں ہمیشہ یہ بات رہی کہ شیخ محترم نے میرے بارے کہیں غلط تأثر نہ قائم کر لیا ہو اور اس پر افسوس کرتے رہے۔

ستیانہ بنگلہ میں تعلیم کی ترغیب:
جامعہ جلالپور میں صحیح بخاری کی کلاس تھی ایک مرتبہ فضیلۃ الشیخ عبد الغفار المدنی حفظہ اللہ جامعہ میں تشریف لائے آپ جامعہ ابی بکر میں ان سے پڑھتے رہے تھے اس لیے ان سے تعلق تھا تو انہوں نے پوچھا کہ فراغت کے بعد کیا ارادہ ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ ابھی تو سوچ ہی رہا ہوں تو انہوں نے اشارۃً بتایا کہ ستیانہ بنگلہ میں دورہ تدریب الدعاۃ فارغ التحصیل طلباء کے لیے ہوتاہے تو آپ کو شوق پیدا ہوا کہ ایک سال لگا کر یہ دورہ کرنا چاہیے اسی دوران آپ کلاس کے طلباء کا وفاق کا داخلہ کروانے کے لیے جامعہ سلفیہ آئے تو ستیانہ بنگلہ اُترے اس وقت صرف حفظ والا مدرسہ تھا اور اسی میں حفظ اور تدریب الدعاۃ کے دورہ کی کلاس ہوا کرتی تھی اور درس نظامی ابھی شروع ہونا تھا آپ حفظ والے مدرسہ میں مولانا مطیع اللہ صاحب کو ملے اور حالات کا جائزہ لیا پھر جب وفاق المدارس کے پیپر دینے کے لیے جامعہ سلفیہ فیصل آباد آئے تو پتا چلا کہ ستیانہ بنگلہ میں جماعت المجاہدین کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ ساتھ مولانا محمد جنود صاحب جو کہ سری لنکا کے رہنے والے تھے ان کا بھی دورہ کرنے کا ارادہ تھا تو یہ طے ہوا کہ کانفرنس بھی سنیں گے اور ادارہ بھی دیکھ لیں گے کانفرنس پر آئے تو مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے منبر پر چڑھ کر نماز کا طریقہ پریکٹیکل کرکے دکھایا تو چونکہ آپ کا ذہن پہلے ہی تربیتی تھا اس لیے آپ کو بہت خوشی ہوئی کہ مولانا صاحب انہی کے ذہن والے آدمی ہیں اس لیے آپ کا دورہ کرنے کے لیے پختہ عزم بن گیا۔

ستیانہ بنگلہ میں دورۂ تخصص:
رمضان کے بعد آپ نے دورہ تدریب الدعاۃ میں داخلہ لے لیا لیکن جو ذہن اور خواہش تھی اس کے مطابق پڑھائی والا ماحول نہ مل سکا کیونکہ اساتذہ صرف دو ہی تھے فضیلۃ الشیخ عبد الغفار المدنی حفظہ اللہ تعالیٰ اور مولانا مطیع اللہ صاحب۔

اس لیے سال میں دو تین مرتبہ چھوڑنے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر چند وجوہات کی بناء پر تعلیم جاری رکھی سال کے دوران بھی آپ نے بہت محنت اور لگن سے پڑھا تو جب امتحانات ہوئے تو آپ کی پہلی پوزیشن آئی۔

دورۂ تفسیر القرآن:
دورہ تخصص کے بعد آپ کی شیخ عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ سے دورہ تفسیر القرآن کرنے کی خواہش تھی اسی رمضان میں دورہ تفسیر القرآن کیا اور اس کے اختتام پر اول پوزیشن بھی حاصل کی۔

تدریس کی ابتداء:
آپ دونوں دورہ جات میں اچھے نمبر حاصل کرکےاول پوزیشن پر فائز ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ آپ نے ہمارے پاس رہنا ہے جس سال آپ نے دورہ کیا تھا اُسی سال سےحفظ القرآن کی تکمیل کرنے والے چند طلباء کی درس نظامی کی کلاس شروع ہوئی تھی اس سے پہلے بھی ایک دو مرتبہ کلاس شروع ہوئی تھی لیکن ایک کلاس کے بعد آگے سلسلہ نہ چل سکا۔

آپ کو مولانا عتیق اللہ صاحب حفظہ اللہ نے درس نظامی کی تدریس کے لیے منتخب کرلیا آپ نے 1991ء میں پڑھانا شروع کر دیا۔ دو تین ماہ بعد مولانا مطیع اللہ صاحب چھوڑ گئے ان کے بعد ان کی جگہ پر مولانا رحمت اللہ الہ آبادی رحمہ اللہ صاحب پڑھانے کے لیے آئے یوں ستیانہ بنگلہ میں درس نظامی کا سلسلہ شروع ہوا جب تیسری کلاس کا آغاز ہوا تو شیخ عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالیٰ پڑھانے کے لیے تشریف لائے اس وقت بلوغ المرام تیسری کلاس میں تھی تو شیخ عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تیسری کلاس کو بلوغ المرام اور دورہ تخصص والی کلاس کو صحیح البخاری پڑھاتے تھے۔

معروف اساتذہ کرام:
آپ نے جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا ان میں سے چند ایک کا نام درج ہے۔
مشائخ جلال پور
فضیلۃ الشیخ مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مولانا اللہ یار صاحب رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مولانا محمد رفیق اثری صاحب رحمہ اللہ
ستیانہ بنگلہ
فضیلۃ الشیخ مولانا عبد اللہ امجد محدث چھتوی رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الغفار المدنی صاحب حفظہ اللہ۔
مشائخ جامعہ ابی بکر کراچی
فضیلۃ الشیخ مولانا حافظ محمد شریف صاحب حفظہ اللہ فیصل آباد
فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الغفار المدنی صاحب حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مولانا عطاء اللہ ساجد صاحب رحمہ اللّٰہ
فضیلۃ الشیخ شبیر احمد بن نور حفظہ اللہ
ڈاکٹر نصیر احمد اختر پروفیسر کراچی یونیورسٹی(سابقاً)
شیخ حسین احمد مصری صاحب
ڈاکٹر عبد الجواد صاحب مصری
شیخ خلیل الرحمن لکھوی حفظہ اللہ۔
ایک مرتبہ فضیلۃ الشیخ مولانا حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی صاحب رحمہ اللّٰہ نے دورہ تفسیر کروایا تھا تو اس میں بھی شرکت کی تھی۔

تلامذہ:
ستیانہ بنگلہ میں علومہ اسلامیہ کے شعبہ میں درج اساتذہ پڑھاتے ہیں۔

الشیخ عبد الرشید صدیقی صاحب، الشیخ قاری ظہور احمد صاحب، الشیخ مختار احمد مدنی صاحب، الشیخ عبداللہ یوسف صاحب، الشیخ عمران اعظم صاحب، الشیخ عبد الباسط عتیق صاحب، الشیخ قاری یحییٰ حسن صاحب، الشیخ عبدالحلیم علوی صاحب، الشیخ اویس اکبر صاحب، الشیخ احمد عتیق صاحب، الشیخ حمزہ لیاقت اعوان صاحب، الشیخ حافظ محمد سعید صاحب، الشیخ عبد الخالق صاحب حفظہم اللّٰہ تعالیٰ۔
اور یہ سب آپ کے تلامذہ ہیں۔
اس کے علاوہ قاری ذکاء اللہ سلیم صاحب برمنگھم (برطانیہ)، مولانا عمران دانش صاحب لارنس روڈ لاہور، مولانا محمد صدیق صاحب مرکز ابن قاسم ملتان، مولانا شفیق الرحمن صاحب جامعہ محمدیہ ملتان، مناظر اسلام مولانا صدیق رضا صاحب کراچی، مولانا عبد القیوم صاحب مہنتانوالہ، مولانا مختار سلفی صاحب منڈی واربرٹن، قاری حفیظ الرحمن صاحب پھول نگر، ڈاکٹر شفقت الرحمان مغل صاحب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ڈاکٹر عبدالحمید صاحب اسلامیہ یونیورسٹی اسلام آباد، پروفیسر قاری عبدالمنان صاحب جھنگ یونیورسٹی، پروفیسر افضل طور صاحب ساہیوال اور ملک کے کثیر دینی جامعات میں کثیر تعداد میں آپ کے شاگرد دین کا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ حفظہم اللہ وکثر أمثالہم

تصنیفات:
1. جامعہ ابی بکر کی دوسری کلاس میں پیر بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے ایک فتوی ‘‘قرآن خوانی کی شرعی حیثیت’’ کو مرتب کیا۔
2. میں نے راہ ہدایت کیسے پائی؟ اس میں اپنے اہل حدیث ہونے کا واقعہ بیان کیا۔
3. اسلامی جنتری جو 1994ء سے مسلسل چھپتی آرہی ہے۔
4.رسول اللہ ﷺ کی نماز ۔ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کی کتاب کا ترجمہ
5. اصول تفسیر سوالاً جواباً
6. اسلامی قانون وراثت سوالا جوابا
7. شرح مقدمہ صحیح مسلم (زیر طبع)
8. کتاب الصرف جدید
9. قواعد الصرف تین حصے (کتاب الصرف جدید میں ہی کچھ اضافے کے ساتھ اور دار السلام کی ٹیم کے تعاون کے ساتھ یہ کتاب مرتب ہوئی۔
10. قواعد النحو تین حصے اس میں بھی ابتدائی کاوشیں آپ کی ہی تھیں۔
11. اسلامی تجارت
12. کبیرہ گناہ
13. تعلیمی کھیل
14. رشتہ داری کی پریشانیوں کا حل
15. اسلامی دستور زندگی
16. کھیل کے میدان سے مسجد کے محراب تک
17. اسلامی پہاڑہ
18. توکل السالکین
19. تفسیر معانی القرآن، جزء 28، 29 اور 30 اس میں دیگر اہل علم کا خصوصی تعاون ہے۔
20. تفہیم اصول الشاشی
21. مختصر سیرت النبی ﷺ
22. نمازِ نبوی ﷺ
23. مسنون نماز
24. اسلامی ڈائریکٹری
25. اسلامی قانون وراثت پوسٹر
26. مسافر کا زاد راہ
27. شرح الفوز الکبیر
28. مفتاح الاصول
29. اسوہ رسول ﷺ۔

اس کے علاوہ ضیائے حدیث لاہور، اسوۂ حسنہ جامعہ ابی بکر کراچی، الاصلاح تاندلیانوالہ، صراط مستقیم برطانیہ اور دیگر رسائل وجرائد میں آپ کے مضامین چھپتے رہتے ہیں۔

طلباء کے لیے پیغام:
شیخ محترم کی طرف سے طلبہ کے لیے چند نصیحتیں درج ہیں۔
1. دین کی تعلیم اخلاص نیت کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے حاصل کریں۔
2. جس قدر ہوسکے زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔
3. درست اور مفید کام پر محنت کریں محنت کا رخ سیدھا ہو تو نتیجہ ضرور ملتاہے۔
4. دوران تعلیم صرف تعلیم ہی کی طرف توجہ رکھنا اہم ہے کتابوں کا صحیح حل کرنا، اصول وقواعد کا استعمال اور مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے۔
5. علم کے مطابق باعمل ہونا بھی ضروری ہے۔

إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ

اساتذہ وعلماء کے لیے نصیحتیں:
اسی طرح اساتذہ و علماء کے لیے بھی چند نصیحتیں درج ذیل ہیں۔

1. مطالعہ کو ہمیشہ لازم وملزوم رکھا جائے۔
2. طلباء کو کتاب کا صحیح حل کروایا جائے وقت پاس والی بات نہیں ہونی چاہیے۔
3. طلباء کو خارجی معلومات بھی دینی چاہئیں۔
4. عصر حاضر کے مطابق مسائل وغیرہ کا استنباط کروائیں۔
5. دوران اسباق عبرت والے دروس سے طلباء کو متنبہ کرنا چاہیے۔
6. طلباء کو مربی بن کر پڑھایا جائے اور تربیت کی جائے۔
7. طلباء میں غلطی نظر آئے تو فوراً اصلاح کرنی چاہیے اور جن طلباء کا سبق نہ بھی ہو ان کی بھی اصلاح کرنی چاہیے۔
8. طلباء سے انتقامی کارروائی کا ذہن نہیں رکھنا چاہیے یہ چیز انتہائی نقصان دہ ہے۔
9. کلاس میں سب سے کمزور طلباء کو مدنظر رکھتے ہوئے سبق پڑھایا جائے۔
10. گزشتہ سبق سننے کا اہتمام، فنی کتب کی ہفتہ وار اور ماہانہ وار دہرائی کا اہتمام کرنا چاہے۔
سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔

کاوش: ابو الحسن عمر فاروق بن مظفر اقبال ستیانہ بنگلہ

یہ بھی پڑھیں: حافظ عبدالعزیز علوی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف