عادل حکمران کی فضیلت
اگر حکمران نیک ہو، احکامِ شریعت کے نفاذ کے لیے پوری نیک نیتی سے سعی کرتا ہو، رعایا میں عدل و انصاف کرنے والا ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے بلکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ایسا حکمران سب سے زیادہ اجر پانے والا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نفع عام ہوتا ہے، عباد و بلاد کی اصلاح اس پر موقوف ہوتی ہے۔
علامہ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وعلى الجملة، فالعادل من الأئمة والولاة والحكام أعظم أجرا من جميع الأنام، بإجماع أهل الإسلام».
’’بالجملہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ عادل امام (خلیفہ و بادشاہ)، والئ (گورنر ) اور حکمران (اپنے دور کے) تمام انسانوں سے زیادہ اجر پانے والے ہیں۔‘‘
(قواعد الاحکام فی مصالح الانام: 1/ 143)
حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«من كان أهلا للولاية وعدل فيها، فله فضل عظيم تظاهرت به الأحاديث…وإجماع المسلمين منعقد عليه».
’’جو شخص ولایت (وحکمرانی) کا اہل ہو اور اس میں عدل سے کام لے تو اس کے لیے بڑی فضیلت ہے اس پر بکثرت احادیث مروی ہیں…. اور اس پر مسلمانوں کا اجماع بھی منعقد ہو چکا ہے۔‘‘
(شرح مسلم : 12/ 210)
اس اجماع کی اصل کئی احادیث ہیں ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ : الْإِمَامُ الْعَادِلُ».
’’سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (اول) انصاف کرنے والا حاکم‘‘… إلخ۔
(صحیح بخاری : 660)
نیز سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ ؛ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا».
’’عدل کرنے والے اللہ کے ہاں، رحمن عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم : 1827)
والله ولي التوفيق.
🖋 …حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی آخری سانسیں