غزہ کی آخری سانسیں
[عین ان لمحات میں جب غزہ کو آگ اور بارود میں جھونکا جا رہا تھا، اس وقت ہمارے علمائے کرام مرزا محمد علی جہلمی کی تکفیر کرنے کے لیے پوڈ کاسٹ دینے میں مصروف تھے]
چمکتی دمکتی سیاہ آنکھیں، معصوم ہونٹوں پر خفیف سی مسکان، سنہرے بال اور آسمانی رنگ کی قمیص میں ملبوس اس بچّے کی تصویر دیکھ کر بے ساختہ اسے پیار کرنے کو جی چاہتا ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر بچہ اپنے باپ کی آنکھوں کا تارا اور ماں کا جگر پارہ ہوتا ہے، مگر یہ بچہ اتنا حَسین، خوب صورت اور گول مٹول سا ہے کہ ہر کسی کو اِس پر پیار آ جائے۔اِس کی پیشانی پر پڑے نفیس سنہرے بال بہت ہی پیارے لگ رہے ہیں۔اِس بچے کی عمر صرف گیارہ ماہ ہے۔یہ اِس کی چند روز قبل کی تصویر ہے، جب یہ زندہ تھا۔ اب اِس بچے کا والد اِس کی لاش اٹھائے احتجاج کناں ہے، باپ کی آنکھیں اشکوں سے لدی ہیں کہ ظالمو! اِس معصوم کا کیا قصور تھا؟ اِس کو کس جرم کی پاداش میں بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا؟ باپ چیخ رہا ہے کہ اِس بچے نے تو ابھی مسکرانا ہی سیکھا تھا، مگر اب اِس کا ہنستا مسکراتا چہرہ جل کر جھلس چکا ہے۔ اس کے سنہرے بال، اس کی زخمی پیشانی پر خون سے چِِپکے ہوئے ہیں اور اس کی موٹی موٹی سیاہ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہیں۔
یہ مسموم سا غنچہ میرے دل کو بے حد مغموم کر گیا، اس بچے کا والد اپنے گیارہ ماہ کے اس بچے کی لاش اٹھائے ساری دنیا کے سامنے سوالیہ نشان بنا چیخ رہا ہے کہ اسرائیلی درندے کب تک یہ درندگی کرتے رہیں گے اور دنیا کب تک اِس ظلم سے چشم پوشی کرتی رہے گی؟
گیارہ افراد پر مشتمل مشراوی کا خاندان بھی غزہ کے ضلع شبرہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔ ایک کمرے میں پانچ افراد سوتے تھے۔ جہاد مشراوی کے مکان کی چھت پر ایک میزائل آ کر گرا اور اُس کا گھر اور خاندان اجڑ گیا تھا۔ اب سارا غزہ ہی ویران خانہ بن چکا ہے، اسرائیل کے حملوں کے باعث غزہ سسک رہا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے ییں۔ کتنے ہی لوگ اس طرح شہید کر دیے گئے ہیں کہ ان کے جسموں پر سے سَر مکمّل طور پر غائب ہیں۔ چار سالہ علی بار بار اپنے والد سے پوچھتا ہے کہ اُس کا چھوٹا بھائی کہاں چلا گیا ہے؟
ایک اور بچے کا نام عبدالرّحمان نعیم ہے، اُس کی عمر چھے سال ہے، یہ بچہ بھی اسرائیل کی سفّاکیت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ عبدالرّحمان نعیم کے والد کا نام ڈاکٹر مجدی ہے، وہ غزہ شہر کے شفا ہسپتال میں ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر تھا۔ اُسے اپنے بچے کی موت کا عِلم اُس وقت ہُوا جب وہ ایک مریض کا علاج کرنے ہسپتال گیا تھا، وہاں اُس نے اپنے لختِ جگر کو بھی مُردہ حالت میں دیکھا تو اُس کی ہچکی بندھ گئی۔
عین ان لمحات میں جب غزہ کو آگ اور بارود میں جھونکا جا رہا تھا، اس وقت ہمارے علمائے کرام مرزا محمد علی جہلمی کی تکفیر کرنے کے لیے پوڈ کاسٹ دینے میں مصروف تھے، تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام، ارشاد بھٹی کے ساتھ مرزا محمد علی جہلمی کے خلاف آگ اور شعلے اگل رہے تھے۔ غزہ کے بچوں کے وجود چیتھڑوں کی مانند اڑائے جا رہے تھے، ان مظلوموں کے ننھے وجود زخموں سے لیر و لیر تھے، ان کی آہ و بکا دلوں کو چیر رہی تھی، ان کی بھیانک ویڈیوز دیکھ کر دلوں میں بھونچال آئے ہوئے تھے مگر علمائے کرام اس سے مکمل چشم پوشی برت کر ایک ایسے شخص پر دلوں کی بھڑاس نکال رہے تھے جو ہر مکتب فکر کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتا ہے، ایک ایسے شخص پر ہمارے مفتیان کرام برانگیختہ تھے جو بہ بانگِ دہل ہر مسلک کو چندہ دینے کو جائز سمجھتا ہے۔ جو توحید کا سب سے بڑا داعی ہے، جو ختم نبوت کا رکھوالا ہے، غزہ بھسم کر دیا گیا مگر ہمارے علمائے کرام کوّا حلال ہے یا حرام سے مماثل، ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے کی بحث سے بھی ابتر بحث میں مصروف تھے کہ کسی نہ کسی طرح اتحاد امت کے داعی مرزا محمد علی جہلمی کو کافر ثابت کر دیا جائے۔
غزہ بھسم کر دیا گیا۔کوئی پوذ کاسٹ غزہ پر نہ ہوئی۔ سب کے لبوں پر سکوت طاری ہے۔ سیاست دان گونگے بہرے بن چکے ہیں اس لیے کہ ہم آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ آج غزہ ایک سنسان ویرانہ ہے۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
ہر دھڑکتے پتّھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بِیت جاتی ہیں، دل کو دل بنانے میں
اسرائیل کی یہ بدمعاشی شروع سے تھی کہ وہ فلسطین کے وجود کو ختم کرنے کے لیے وہ مغربی کنارے پر ہزار گھر تعمیر کرنے میں مصروف تھا۔
یہ سوال مسلسل مجھے مضطرب کیے ہوئے ہے کہ کیا چار سال کا علی اور عمر دونوں دہشت گرد تھے؟ ملالہ کے لیے ساری دنیا میں ایک طوفان اور بھونچال برپا کر دیا گیا تھا۔ مُلکی اور غیر مُلکی میڈیا اسے ظلم وجبر کی مکروہ قبیل سے تشبیہہ دے کر مسلم اُمّہ اور پاکستان کو بدنام کر رہا تھا، مَیں بھی ملالہ پر حملے کو دہشت گردی کہتا ہوں اس لیے کہ اسلام کسی مسلمان تو کجا کسی غیر مسلم عام مَردوں، عورتوں اور لڑکیوں پر بھی اس طرح کے حملے کی اجازت نہیں دیتا۔ جہاد فقط اُن ہی غیر مسلموں کے خلاف ہوتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف میدانِ جنگ میں اترتے ہیں۔ میرا سوال اُن لوگوں سے ہے جو ملالہ کے ملال میں تو مبتلا تھے مگر اب ساکت وجامد بنے ہُوئے ہیں۔ وہ لوگ ملالہ پر حملے کو دنیا کا سب بڑا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے تھے مگر اب ان پر سکوت طاری کیوں ہو گیا ہے؟ وہ ٹی وی چینلز جو ملالہ کے دُکھ پر سونامی طوفان بنے ہوئے تھے، وہ ٹی وی اینکرز جو امریکی لکھے ہوئے ناٹک پر کمال اداکاری کا مظاہرہ کر رہے تھے، اب اُن کے جذبات واحساسات میں وہ مدوجزر اور جوار بھاٹا تو کجا، ہلکی سی ارتعاش تک بھی کیوں پیدا نہیں ہو رہی؟ ان معصوم پھولوں کی لاش اور زخمی ننّھے وجود دیکھ کر کوئی ایک مُلک بھی سرزنش کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کہیں اسرائیل کے ماتھے پر شکنیں نہ پڑ جائیں۔ دنیا کے 57 کے قریب اسلامی ممالک میں کوئی ایک مُلک بھی جُھرجُھری لینے کے لیے آمادہ نہیں۔ آخر اتنے وسائل اور افواج کس مقصد کے لیے ہیں؟ پاکستان نہ صرف دس لاکھ سے زائد فوج کا مالک ہے بلکہ ایٹمی طاقت بھی رکھتا ہے۔ترکی کی فوج 6 لاکھ 58 ہزار ہے اور ترکی 17.5 بلین ڈالر سالانہ اپنی فوج پر خرچ کرتا ہے، ایران کی فوجی چھاؤنیوں میں 5 لاکھ 45 ہزار سے زیادہ کڑیل فوجی موجود ہیں اور وہ 9.17 بلین ڈالر سالانہ اپنی فوج پر خرچ کرتا ہے اور مصر کے 4 لاکھ 68 ہزار 5 سو سے زائد فوجی گھبرو جوان ہیں مگر ان سنہرے بالوں، گلابی گالوں اور سیاہ آنکھوں والے معصوم بچوں کے حق میں کوئی ایک مسلم مُلک بھی آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں، مَیں حیران ہوں کہ ترکی کے آرمی سلوگن پر شاہین کے پَر اور دو تلواریں بنی ہوئی ہیں، کس کام کے یہ سلوگنز پر موجود شاہین کے پَر اور تلواروں کے نشان، جو مسلم اُمّہ پر ہونے والے ظلم کا مداوا تو کجا، اضطراب اور اضمحلال بھی محسوس نہ کر سکیں۔ اور سب جب غزہ لٹ چکا ایک مفتی نے جہاد کا فتویٰ دیا بھی تو کیا فائدہ؟ کہ غزہ تو آخری سانسیں لے چکا۔علمائے کرام اب جی بھر کر پوذ کاسٹ کر کے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے داغتے رہیں کہ غزہ کے بچے تو چیخ چیخ کر زیر زمین دفن ہو چکے۔ اےکاش! کوئی ایک مسلم حکمران ” شاعر جمالی“ کے اِن اشعار کی عملی تصویر بن سکتا۔
اپنا دستور ہے دشمن کو دعا بھی دینا
اور ظالم ہو تو بھرپور سزا بھی دینا
دوسرے گال پہ تھپّڑ نہیں کھاتے ہم لوگ
احتیاطاً یہ ستم گر کو بتا بھی دینا
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )
یہ بھی پڑھیں: سوال اٹھ رہا ہے کہ غزہ کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟