میرے مضمون ‘اعتدال کی بے اعتدالی’ پر اعتراضات وصول ہوئے اکثر تو صرف”انا خیر منہ” كی قبیل سے تھے، اسی لیے فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ کہہ کر اسے نظر انداز کر دیا گیا۔
بقیہ اعتراضات کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ
“بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرۂ خون نہ نکلا”
صرف اور صرف دو اعتراضات بزعم خویش علمی تھے ورنہ حقیقت میں وہ بھی اپنی “خود ساختہ سلفیت” کے پیداوار ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ میں نے مباہلہ اور مناظرہ کی بات کیوں کی!؟ یہ اختلاف کے منافی ہے گستاخی ہے بے ادبی ہے۔
*ایک ایسا ادارہ جو قابل اساتذہ کی تاریخ رکھتا ہو، دسیوں علماء کو پیدا کر چکا ہو، جس کی سو سالہ خدمات ہوں*، آپ صرف سو سیکنڈ میں اس کو بلا علم حرف غلط قرار دے دیں، اور اس پر کسی کے چہرے پر بل تک نہ آئے۔ اور نہ کوئی منصف اس کی عزت و ابرو کے دفاع میں لب کشائی کی زحمت کرے بلکہ دل ہی دل میں خوشیوں کے جھرے بھی پھوٹ رہے ہوں، ایسے میں کوئی دلائل کی روشنی میں اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لیے مناظرہ کی بات کرتا ہو تو شریعت وأخلاق یاد آگئے ۔
وہ تیر گی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
تیرے زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
معاندین کا منہ بند کرنے کے لئے اور حقانیت ثابت کرنے کے لیے مسئلہ چاہے عقیدہ کا ہو یا فقہ کا اس پر مباہلہ کی دعوت دینا ہمارے سلف سے ثابت ہے۔
ابن القیم زاد المعاد میں لکھتے ہیں: إن السنة في مجادله أهل الباطل… أن تدعوهم إلى المباهلة… ودعا إليها ابن عمه عبد الله بن عباس من أنكر عليه بعض مسائل الفروع ولم ينكر عليه الصحابة، ودعاء إليه الأوزاعي، سفيان الثوري في مسألة رفع اليدين ولم ينكر عليه ذلك وهذا من تمام الحجة.
3/ 643].
سنت یہ ہے کہ اہل باطل جب باطل پر اصرار کریں تو انہیں‌‌ مباہلہ کی دعوت دی جائے، جیسا کہ اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا تھا، *یہی حکم امت کے لیے بھی ہے*، اسی لیے اپ کے چچا زاد بھائی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی جنہوں نے بعض فروعی مسائل میں آپ پر اعتراض کیا تھا، اور صحابہ نے اسے غلط نہیں کہا۔ اسی طرح بعض فروعی مسائل میں امام اوزاعی رحمہ اللہ اور رفع الیدین کے مسئلہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بھی مباہلہ کی دعوت دی تھی۔ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، اور یہ اتمام حجت کا ایک طریقہ ہے۔
اعتراض سے قبل اگر آپ اس مسئلہ کی چھان بین کر لیتے تو پتہ چلتا کہ صحابہ و تابعین کے اہل علم فقہی و فروعی ایک مسئلہ کے لئے مباہلہ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔
یہاں ایک مسئلہ نہیں بلکہ 100 سالہ ادارے کو خون جگر سے سینچنے والے دسیوں علما کے عقیدہ و منہج کا تھا، آئندہ فارغ ہونے والے طلبہ کی پہچان کا تھا، سر دست وہاں وابستہ علما کی عدالت وثقاہت کا تھا، جو ہوائی جہاز میں گھوم پھر کر اپنی تقریریں بیچتے نہیں، سلفیت انکا ایمان ہے، کوئی کاروبار نہیں، اسی لئے کفاف پر خوداری سے سفید پوشی کا بھرم رکھ کر قال اللہ وقال الرسول کی جوت جگائے رکھے ہیں۔ ان کے خاطر اگر میں مباہلہ کی دعوت بھی نہ دے سکا تو اس دنیا میں جینے کا مزہ ہی کیا۔

محمد عبدالسلام عمری                      
(امیر شہری جمعیت اہلحدیث چنائی صدر مجلس علماء اہلحدیث تلنگانہ)