افسوس کہ لوگوں نے فائدہ کم اٹھایا

سورہ فاتحہ قرآن مجید کا دیباچہ اور آغاز ہے،شاہ ولی اللہ نے اسے قرآن کے مضامین کی جامع یا کہہ لیجئے اختصار قرار دیا ہے۔سورہ فاتحہ کی علاج کے حوالے سے تاثیر بھی کمال کی ہےمگر افسوس لوگوں نے اس سے فائدہ کم اٹھایا، ظاہر ہے جہاں جعلی عاملوں کی چاندی ہو،جہاں استخارے تک کو کاروبار بنا لیا گیا ہو،وہاں کسی پر سورہ فاتحہ کے اسرار کیسے کھلتے؟
سورہ فاتحہ سے زہر کا علاج ممکن ہے۔
صحابی سفر میں تھے،تب راہ میں ہوٹل کب ہوتے تھے،بھوک لگی تو ایک قبیلے والوں سے میزبانی کا تقاضا کیا،عرب روایات کے خلاف انھوں نے انکار کر دیا۔ یہ مایوس بیٹھے ہی تھے کہ ایک عورت ان کے پاس آئی۔کہنے لگی سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے تم میں سے کوئی دم وغیرہ کر سکتا ہے؟ایک صحابی نے حامی بھر لی۔ مگر ان کے سلوک کے تناظر میں کوئی تیس چالیس بکریاں اجرت بھی طے کر لی۔ دم کیا تو سردار سانپ کے زہر سے شفایاب ہوگیا۔انھوں نے بکریاں ہانکیں اور ساتھ لے آئے۔ساتھیوں نے پوچھا، کیا پڑھا تھا؟ کہنے لگے سورہ فاتحہ،مدینہ آئے تو رسول کریم کو سب ماجرا کہہ سنایا،آپ نے فرمایا،تمھیں کیسے پتہ چلا کہ سورہ فاتحہ دم بھی ہے۔
سورہ فاتحہ سے جنون اور پاگل پن کا علاج
ایک صحابی مسلمان ہوئے،واپسی پر وہ اپنے قبیلے کی طرف محو سفر تھے کہ راہ میں ایک قبیلے سے گزر ہوا۔ انھوں نے ایک شخص کو بیڑیوں وغیرہ میں جکڑ رکھا تھا،وہ شخص پاگل ہو چکا تھا،جب قبیلے والوں کو اس صحابی کے ایمان کے بارے پتہ چلا تو کہنے لگے،تمھارے رسول یا دین میں کچھ ایسا بھی ہے،جو ہمارے کام آئے،انھوں نے سورہ فاتحہ پڑھ کے اس پاگل پر پھونک دیا تو اس کا دماغ ٹھکانے آگیا اور وہ بھلا چنگا ہوگیا۔
سورہ فاتحہ سے علاج کا ایک واقعہ عبدالسلام بھٹوی صاحب نے لکھا۔غالبا ان کی ہمشیرہ کا ایک بازو مفلوج ہوگیا تھا۔ظاہر ہے علاج کروائے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔پھر ایک وقت آیا کہ دوسرے بازو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگیا۔ سب ڈرے کی زندگی بالکل اجیرن ہو جائے گی۔کسی نے بتایا کہ سورہ فاتحہ کا دم کرتے رہو۔یہ شروع کیا تو بازو ٹھیک ہوگیا۔ پھر زندگی بھر اس بازو کو کبھی کوئی مسئلہ نہ بنا۔
سورہ فاتحہ کے دم سے ہڈی جڑنے کے دو اشخاص کے واقعات خود میرے علم میں ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ قرآن شفا بھی ہے۔ روحانی امراض کا بھی اور جسمانی و ذہنی امراض کا بھی۔ سورہ فاتحہ کی اس حوالے سے الگ ہی شان ہے۔جتنا بڑا مسئلہ ہو، اسی قدر زیادہ بار اس کا دم کیجئے۔اس سے زیادہ شرطیہ شفا کی شاید ہی کوئی دوسری ضمانت ہو۔

#یوسف_سراج

امام غزالی کے بارے سنتے ہیں کہ آخر میں کبھی وہ یہ تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش انھوں نے علم کلام و فلسفہ کا جتنا علم حاصل کیا،یہ نہ کیا ہوتا،ان کی زندگی گاؤں کی اس عورت جیسی ہوتی،جو علوم جدیدہ سے قطعی بے خبر چرخہ چلایا کرتی ہے اور بس یہ جانتی ہے کہ اس کا خدا ہے۔ راولپنڈی میں ایک جگہ ،حضرت حافظ عبدالحمید رحمہ اللہ کے ہاں میں قرآن پڑھا کرتا تھا، وہاں ایک نوجوان قاری تھے،ان کا تعلق افغانستان سے تھا،قرآن پڑھتے تو سماں باندھ دیتے،دل سے رشک کی ایک لہر سی اٹھتی کہ کاش میں بھی ان کی طرح قرآن پڑھ سکتا،انھیں مگر اس بات پر رشک آیا کرتا تھا کہ میں برمحل شعر پڑھ سکتا تھا۔
آدمی کی بھی شاید عجیب کیفیت ہے،اردو ادب میں اس کیفیت کو مولانا محمد حسین آزاد سے بہتر کسی نے بیان نہیں کیا،انھوں نے ایک تمثیلی افسانہ لکھا،انسان کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا۔انھوں نے بتایا کہ ایک میدان میں سب انسانوں نے اپنے اپنے وہ رنج و الم ڈھیر کر دئیے، جن کے بارے ان کا خیال تھا کہ ان غموں سے بڑھ کر بھی کسی کا رنج و غم کیا ہوگا،اب انھیں اختیار دیا گیا کہ ان کے غموں کے مقابلے میں انھیں جو بھی دکھ درد کمتر اور ہلکے محسوس ہوں،وہ ان سے اپنے غم بدل لیں،خوشی خوشی ہر ایک نے اپنے غم کی پوٹلی اتار پھینکی اور دوسرے کے ہلکے غم لے لیے،مگر چند ہی ثانیوں بعد سب ہلکے سمجھ کے بدلے ہوئے غموں سے گھبرا گئے اور ان کی تاب نہ لا سکے،انھیں احساس ہوا کہ وہ اپنی مصیبت کے بہتر طور پر عادی ہو کے اس کے ساتھ انسیت یا ایک گوارا کیفیت پیدا کر چکے تھے۔
انسان بس ایسا ہی ہے۔اسے اپنا سکھ دوسروں سے ہلکے اور غم دوسروں سے بڑے نظر آتے ہیں۔ موجود کی قدروقیمت نہ جان کے انسان غیر موجود کے پیچھے بھاگتے ہیں اور یوں غیر مطمئن و ناشاد رہتے ہیں۔

#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: مولویوں کو اب میڈیا شناسی بھی سیکھ لینی چاہئے