مولویوں کو اب میڈیا شناسی بھی سیکھ لینی چاہئے

مولویوں کو اب کچھ میڈیا شناسی بھی سیکھ لینی چاہئے، اب جو حقائق سامنے آئے، ان سے پتہ چلا کہ اچھرہ واقعہ کو سانحہ میں نہ بدلنے دینے میں سب سے بنیادی کردار علما نے ادا کیا مگر بدقسمتی سے سب سے زیادہ بدنامی بھی انھی کے حصے میں آئی،یہاں تک کی خود اہل مذہب کے ہاں بھی وہ معتوب ہوئے، تاثر اور امپریشن پہلا ہی موثر ہوتا ہے،بعد کی وضاحتیں ہوجانے والے نقصان کو زائل نہیں کر سکتیں۔ واقعہ یہ تھا کہ اس موقع پر علما کو پولیس نے اپنی مدد کے لیے بلایا تھا،خاتون سے معافی علما کے کہنے پر نہیں،پولیس کے کہنے پر منگوائی گئی۔ بی بی سی کیساتھ انٹرویو میں شہر بانو یہ کہہ چکیں کہ یہ معافی تھانے پر ہونے والے کسی متوقع حملے اور خاتون کے آئندہ تحفظ کیلئے منگوائی گئی۔ علما وہاں اس لیے بیٹھے کہ پولیس نے خاتون کے تحفظ کیلئے ایسا چاہا، علما نے اولا پولیس کے کہنے پر ویڈیو میں یہ بتایا کہ کپڑے پر لکھے حروف آیات نہیں،نہ یہ گستاخی ہی ہے،ان کے اسی تعاون سے مشتعل عوام ٹھنڈے پڑ سکتے تھے اور پڑے، جس پولیس آفیسر نے یہ کارنامہ کیا،وہ ہرگز یہ نہ کر سکتی،اگر علما وہاں موجود نہ ہوتے اور ایسی ہمدردانہ بات نہ کہتے، ظاہر ہے،ایسے موقع پر لوگ پولیس کی نہیں،علما کی بات پر اعتبار کرتے ہیں۔یہ بات پولیس کو بھی معلوم تھی،چنانچہ اس نے علما اور مقامی تاجر تنظیم کے رہنماؤں سے تعاون حاصل کیا۔ اس کے سوا علما کا اس معاملے میں کوئی کردار نہ تھا۔ اس کے باوجود مگر ان سے زیادہ آج میڈیا اور سوشل میدیا پر کوئی بدنام نہیں۔
بہتر ہوتا وہ معافی والی ویڈیو میں نہ بیٹھتے، پولیس کو ضرورت تھی تو یہ وہاں بیٹھنے کا پس منظر بیان کر دیتے یا فورا بعد انٹرویو دے دیتے۔ اپنے موبائل سے ویڈیو بنا کے وضاحت کر دیتے۔ کر دیتے تو آج اہل مذہب اتنا ہدف نہ ہوتے۔مگر ایسا نہیں ہوا اور لوگ ان سے متنفر ہوتے رہے۔
دو چیزیں آج اگر مدارس اپنے طلبا کو نہیں سکھاتے تو ایسا ہر موقع خود مذہب اور اہل مذہب کے لیے ٹریپ ثابت ہوتا رہے گا۔ اولا میڈیا کی اہمیت اور استعمال اور دوسرا ایسے کسی نامطلوب موقع کی مینجمنٹ۔ علما اور دینی طلبا کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ میڈیا میں ایک تصویر یا ویڈیو میں کسی کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ کس لفظ سے کیا ہنگامہ اٹھ سکتا اور چہرے کے کس تاثر سے کون سی قیامت اٹھائی یا روکی جا سکتی ہے؟ دراصل میڈیا علما کو بطور ایک مضمون کے مدارس میں پڑھانے کی ضرورت ہے، اس پر وقتا فوقتا لیکچر بھی کروائے جا سکتے ہیں، چند روزہ ورکشاپس ہو سکتی ہیں،خصوصا سوشل میڈیا کے طاقت ور جن بن جانے کے بعد یہ اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے،حیرت ہے، ابلاغ ہی جن کا کام ہے،ابلاغ ہی انھیں پڑھایا نہیں جا رہا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے،آپ مدد کرتے ہیں اور ولن قرار پاتے ہیں اور یہ صرف اہل مذہب کے ہی نہیں، بلکہ مذہب کے تاثر اور نیک نامی کا بھی معاملہ ہے۔

#یوسف_سراج

جو سادہ لوح اچھرہ واقعہ اور اس کے اثرات کو معمولی سمجھ رہے ہیں۔انھوں نے شائد یورپ میں مذہب کی تاریخ نہیں پڑھی،اور انھوں نے شائد اسلام کے مزاج سے بھی صحیح آشنائی حاصل نہیں کی ہے، اور خصوصا اس بات کی طرف ان کی ذرا توجہ نہیں کہ اسلام کے قیامت تک دین ہونے کا کیا مطلب ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں؟
یورپ میں ایک وقت وہ بھی آیا تھا کہ پوپ عام لوگوں کی زندگی میں اتنا دخیل ہوگیا تھا اور اس نے مذہب کے نام پر عوام پر زندگی ایسی اجیرن کر دی تھئ کہ پوپ کی شدت پسندی سے متنفر ہو کر لوگ مذہب ہی کا شکنجہ توڑ کے باہر آگئے تھے۔
دین حنیف کا مزاج عام لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرنے کا ہے،اس کی مثالیں یہاں میں درج نہیں کر رہا،لیکن کچھ تو خود آسمان سے اس امت کیلئے سابقہ تمام امتوں کے مقابل لاتعداد آسانیاں کر دی گئیں، دوسرے نبی رحمت کے مبارک مزاج سے بھی اس امت کو فائدہ پہنچایا گیا۔مثلا آپ نے فرمایا، امت کیلئے مشقت نہ ہوتی تو میں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دے دیتا،مثلا رمضان میں تیسرے دن آپ تراویح کیلئے تشریف نہ لائے کہ مبادا امت پر فرض کر دی جائیں۔
پھر اگر اس دین کو قیامت تک چلنا ہے تو اسے ضرور جدت کا ساتھ دینے والا دین ہونا چاہئے،یہ جدت خود رسول رحمت کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے،مثلا آپ مکہ سے مدینہ آئے تو کئی جدتوں سے صحابہ کا سامنا ہوا اور آپ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا، مثلا یہاں کھجور کے درخت کی پیوند کاری دیکھی گئی،اولا آپ نے منع فرمایا،پھل میں کمی ہوئی تو اجازت دے دی اور فرمایا،تم دنیاوی امور کے مجھ سے زیادہ شناور ہو،جو بہتر سمجھو وہی کرو،یہاں عورتوں کا اپنے شوہروں سے رویہ بھی مکہ سے مختلف تھا، انھیں زیادہ آزادی حاصل تھی،سیدنا عمر نے اس کا شکوہ کیا تو کسی نے کہا پہلے یہ دیکھئے کہ خود آپ کی بیٹی کا رسول سے کیا رویہ ہے،انھوں نے بیٹی سے پوچھا تو انھوں نے کہا،یہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے۔ایک اور جدت کا یہاں سامنا ہوا،جس کا تعلق میاں بیوی کے تعلق سے تھا اور جس کا میں مزید تذکرہ نہیں کر رہا۔ یہاں ایک معاملہ عبرانی زبان سیکھنے کا بھی پیش آیا،جس کی اجازت دی گئی،تو گویا یہ وہ جدتیں تھیں، جنھیں اپنا لیا گیا۔
خود انسان کی طبیعت میں جدت اور ندرت ہے،یہ ارتقا پسند ہے،تو کوئی کیسے اصرار کر سکتا ہے کہ جدت پسند انسان کیلئے دین جامد ہو،یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے دین کو ہر جدید دور سے ہم آہنگ اور اپڈیٹ کرنے کا مستقل بندوبست کر دیا گیا۔
ایسے میں جب آپ اپنے مزاج ،افتاد طبع یا معیار تقوی کو دوسروں پر مسلط کرکے فیصلے کرنے کی کوشش کریں گے تو اوپر مذکور ہر اعتبار سے دوسروں کے ہاں دین کی نسبت سے نفرت اور تنگی ہی کا سامان کریں گے۔
یہ ایسا ہی حساس معاملہ ہے،کچھ لوگ اسے اغیار کی سازش قرار دینے لگتے ہیں، سازش ڈھونڈنا ویسے ہمارا قومی مزاج اور مشغلہ بھی ہے،لیکن یاد رکھئے، آپ کے ایسے خلاف دین سخت رویے اور کڑے معیار ،دین کیخلاف جیسی سازش کا کام کر جائیں گے،کسی دوسرے کی سازش ایسا کام نہیں کر سکتی،چنانچہ یہ جو ایسے معاملات میں کچھ لوگ زیادہ سنجیدگی سے توجہ دیتے ہیں تو اس کے پیچھے ان کی ایسی دور اندیشی ہوتی ہے۔ یہ محض تفریح کا معاملہ نہیں ہوتا،نہ ان کی دین سے آپ کی نسبت کمٹمنٹ کم ہوتی ہے۔

#یوسف_سراج

بحث چل نکلی ہے کہ اچھرہ واقعہ کی ہولناکی کا تناظر چونکہ مذہبی کم فہمی ہے،لہذا کیوں نہ مذہب پر ہی پابندی لگا دی جائے،تاکہ دنیا میں امن اور شانتی کا دور دورہ ہو سکے۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہو سکتی تھی اگر واقعی غیر مذہبی سماج نے دنیا کو امن کا تحفہ دیا ہوتا،جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ جدید دنیا میں سب سے زیادہ انسان مارنے والا امریکہ غیر مذہبی ریاست ہے،اس کے باوجود اس نے دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک پر اتنا بارود برسایا کہ انسانیت کے نتھنے تک سانس لینے سے عاری ہوگئے۔اگر قوم کی سطح پر بھی دیکھیں تو مغرب میں ایسے واقعات زیادہ ہیں، جن میں کسی نے محض داڑھی یا حجاب کے قصور میں کسی پر گولیاں داغ دیں۔
ویسے بھی ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ مارکیٹ میں جعلی کرنسی عام ہوجانے سے کوئی یہ کہنے لگے کہ اب اصلی کرنسی پر بھی پابندی لگا دی جائے،بلکہ یہی کہنے میں عقلمندی ہوگی کہ اصل کرنسی کی شناخت کی تعلیم دی جائے تاکہ لوگ دھوکہ دہی سے بچ سکیں۔جعلی ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود کوئی یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹروں پر پابندی لگا دی جائے،جدید تعلیم نے ہمارے ہاں نور مقدم جیسے سانحات کو جنم دیا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ کالجز اور یونیورسٹیز بند کر دی جائیں۔
یہ مسئلہ دراصل مذہب سے دوری اور مذہب کی کم فہمی کی وجہ سے پیدا ہوا اور مذہب کی درست فہمی ہی اس زہر کا تریاق اور علاج ہے۔ پھر اس میں اگر مولویوں کا کوئی طبقہ قصور وار بھی ہے تو دو طرح سے وہ اکیلا قصور وار نہیں۔ایک تو اسلام کے نام پر بنائے جانے کے باوجود اس ملک میں مذہب کی درست تفہیم و تعلیم کا سرکاری سطح پر کبھی شافی بندوبست نہیں کیا گیا نتیجتا مذہب نجی سطح پر بعض مقامات پر غلط رنگ بھی اختیار کر گیا۔ پھر خود ریاست نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے بھی مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا، ظاہر ہے،جب خود ریاست کسی بیانئے کے پیچھے آن کھڑی ہو
تو عوام کے دماغوں میں زہر بھرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے باوجود دانش مند علما نے مقدور بھر اس شدت پسندی کا مقابلہ کیا،اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسے واقعات ہر روز اور ہر جگہ نظر نہیں آتے،آتے بھی ہیں تو اس پر قوم کا ہر صحیح الذہن شخص ان کی مذمت کرتا ہے۔سو ایسے موقع پر بھی کلمہ اعتدال ہی کہنا چاہئے۔
#یوسف_سراج

یہ بھی پڑھیں: قبولیتِ اعمال کی بنیادی شرائط