اھل بیت کون؟
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠ (سورۃ الاحزاب: 28 تا 34)
سورۃ الاحزاب کی ان سات آیات میں ایک آیت وہ ہےجس کی بنیاد پر روافض صرف خانوادہ علی رضی اللہ عنہ کو اھل بیت میں شمار کرتے ہیں۔
إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرٗا. (احزاب: ۳۳)
چونکہ اس آیت میں دو مقامات پر ضمیر جمع مذکر کی استعمال کی گئی ہے اور حدیث کساء جو ام سلمہ رضي الله عنها سے روایت ہے جس کے مطابق
انہوں نے کہا: یہ آیت (یعنی: “إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس…”) میرے گھر میں نازل ہوئی۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ، علی، حسن، حسین (رضی اللہ عنہم) کو بلایا، اور ایک چادر (کِساء) میں ان سب کو ڈھانپ لیا، اور فرمایا: “اے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں، ان سے ہر قسم کی گندگی کو دور فرما دے، اور انہیں پاک کر دے، جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے۔”
ام سلمہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: “تم اپنی جگہ ہو، تم خیر پر ہو۔” (مسلم (كتاب فضائل الصحابة، حديث 2424)
تفصیلات میں جائے بغیر ان سات آیات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ
1) پورے رکوع میں ازواج النبیﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے اور دو مرتبہ “یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ” بلکہ ان آیات کا اغاز ہی یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سات آیات میں مکمل طو رپر خطاب صرف ازواج مطہرات کو ہی کیا جا رہا ہے۔
2) ان سات آیات میں تقریبا اٹھائیس مرتبہ جمع مونث کی مناسبت سے افعال اور ضمائر کا استعمال کیا گیا ہے۔
كُنْتُنَّ، تُرِدْنَ، زِیْنَتَهَا، فَتَعَالَیْنَ، اُمَتِّعْكُنَّ، وَ اُسَرِّحْكُنَّ، كُنْتُنَّ، تُرِدْنَ، لِلْمُحْسِنٰتِ
مِنْكُنَّ، مِنْكُنَّ، لَهَا، مِنْكُنَّ، تَعْمَلْ، نُّؤْتِهَاۤ، اَجْرَهَا، لَهَا، اتَّقَیْتُنَّ، فَلَا تَخْضَعْنَ، وَّ قُلْنَ، وَ قَرْنَ، فِیْ بُیُوْتِكُنَّ، وَ لَا تَبَرَّجْنَ، وَ اَقِمْنَ، وَ اٰتِیْنَ، وَ اَطِعْنَ، وَ اذْكُرْنَ، فیْ بُیُوْتِكُنَّ۔
جن احباب کو عربی نحو و صرف سے آگاہی ہے وہ اس فورا پہچان لیں گے اور جنہیں عربی گرائمر نہیں آتی وہ اپنے گھر میں موجود کسی بھی ترجمہ قرآن میں آن آیات کا ترجمہ پڑھ لیں سب نے ان آیات کا ترجمہ ازواج مطہرات کی مناسبت سے ہی کیا ہے۔
3) اھل بیت صرف خانوادہ علی کے افراد ہیں اس دعوی کے بعد سورۃ الاحزاب کی مذکورہ بالا سات آیات میں استعمال کردہ مونث افعال و ضمائر کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
4) ایسا کون سا قرینہ ہے جس کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اس آیت سے خارج سمجھا جا رہا ہے۔
5) مذکورہ بالا ایت کے سبب نزول میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن ایسی تمام احادیث میں ایسی کوئی بات نہیں کہ اھل بیت رسول سے ازواج مطہرات کو خارج کیا جائے۔
6) سورۃ الاحزاب کی ان سات آیات میں صراحت کے ساتھ، یاقرینہ، یا فعل یا بیان کردہ ضمائر کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا 28 مرتبہ ازواج مطہرات کا ذکر خیر ملتا ہے۔تو درمیان کے ایک جملہ سے انہیں کیسے خارج کیا جا سکتا ہے۔
7) ایک شبہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آیت میں خطاب کےلیے جمع مذکر کی ضمائر استعمال کی گئی ہیں چنانچہ ’’عنكم‘‘ اور ’’ ليطهركم‘‘ فرمایا گیا۔ اگر ازواجِ مطہراتؓ مراد ہوتیں تو ’’عنكن‘‘ اور ’’ليطهركن‘‘ ہونا چاہیئے تھا۔اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کس قانون کے تحت اس آیت میں شامل کیا جا رہا ہے۔
٭ واضح رہے عبادات کے پس منظر میں قرآن مجید اور احادیث میں غالب کیفیت مذکر صیغوں کا استعمال ہے اور خواتین اس میں شامل ہوتی ہیں اگر اس استدلال کو مانا جائے تو بے شمار عبادات خواتین پر فرض ہی نہیں ہیں۔ عنکم اور لیطہرکم میں جمع مذکر کی ضمیر استعمال کی گئی ہے وہ محض لفظ اہل کی رعایت سے استعمال کی گئی ہے۔اہل عرب عموماً مؤنث سے تخاطب کرتے وقت جمع مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ خود قرآن پاک موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جبکہ وہ اپنی اہلیہ کو خطاب کر رہے ہیں جمع مذکر حاضر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
فَقَالَ لِأَهۡلِهِ ٱمۡكُثُوٓاْ إِنِّيٓ ءَانَسۡتُ نَارٗا. (طہ:۱۰)
ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ محترمہ ( سارہ) کو خطاب فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے کلام کرتے ہیں:
قَالُوٓاْ أَتَعۡجَبِينَ مِنۡ أَمۡرِ ٱللَّهِۖ رَحۡمَتُ ٱللَّهِ وَبَرَكَٰتُهُۥ عَلَيۡكُمۡ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِۚ. (ھود:۷۳)
9) رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواجِ مطہراتؓ پر ’’اہل بیت‘‘ کے لفظ کا اطلاق فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد آپ ﷺ نے دعوتِ ولیمہ فرمائی اور جب آپ دعوتِ ولیمہ سے فارغ ہوئے تو رسول اللہﷺ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر اس کے بعد زینب رضی اللہ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس تشریف لے جا کر فرمایا:
اَلسَّلَامُ عَلَيكُم اَهلَ البَيتِ، فَقَالَت: وَعَلَيكَ وَرَحمَةُ اللهِ- كَيفَ وَجَدتَّ اَهلَكَ؟ الخ
10) آیتِ تطہیر کے ماقبل میں’’فِي بُيُوتِكُنَّ‘‘ اور اس آیت کے مابعد میں ’’وَٱذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ‘‘ کے الفاظ میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ’’بیوت‘‘ کا ہی ذکرِ خیر ہے اور یہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ہی گھر ہیں۔
11) روایت کے ذریعے اہل بیت کے مفہوم میں اولاد کو بالتبع شامل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث کساء میں کیا گیا ہے۔
12) لفظ ’’البیت‘‘ میں جو الف و لام استعمال ہوا ہے اسے قاعدہ نحو کی رُو سے الف و لام عہد خارج کہا جاتا ہے جو اپنے استعمال کے اعتبار سے ازواج النبی ﷺ کے بیوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ وہی بیوت ہیں جو اس آیت کے ماقبل میں ’’فِي بُيُوتِكُنَّ ‘‘ میں ذکر ہو چکے ہیں اور بعد میں ’’ فِي بُيُوتِكُنَّ ‘‘ میں دوبارہ مذکور ہیں۔
13) جس حدیث کی رو سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کیا اس میں ایسا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے کہ ازواج مطہرات اھل بیت رسول میں شامل نہیں ہیں۔
14) جس آیت تطہیر کی رُو سے ’’اہل بیت‘‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی اس کے نزول کے وقت یا نزول کے بعدرسول اللہﷺ کے صرف ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ موجود تھے جو بعمر اٹھارہ ماہ فوت ہوئے اور صاحبزادیوں میں تو اُس وقت کوئی بھی بیت النبیﷺ میں رہائش پذیر نہیں تھی۔ یہ سب ہی شادی کے بعد اپنے اپنے شوہر کے گھر منتقل ہو گئی تھیں اگر سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مجازاً اہل بیت نبیﷺ میں شامل ہیں تو اُن کی دوسری بہنوں کیلئے اس بیت النبیﷺ کے دروازے کون بند کرسکتا ہے؟
15) اسی طرح اگر علی رضی اللہ عنہ پر مجازاً اہل بیت کا اطلاق ہوسکتا ہے تو آپﷺ کے دوسرے دامادوں ابوالعاص رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ پر اس کا اطلاق کیوں نہیں ہوسکتا؟
16) اگر حسنین رضی اللہ عنہ مجازاً اہل بیت ہیں تو علی رضی اللہ عنہ بن ابی العاص رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کیوں اہل بیت نہیں؟
17) اگر سیّدہ اُمّ کلثوم اور سیّدہ زینب رضی اللہ عنہ دختران علی رضی اللہ عنہ اہل بیت میں شامل ہیں تو اُمامہ رضی اللہ عنہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کیوں خارج کیا جاتا ہے؟
18) ’’آیتِ تطہیر‘‘ دراصل ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے حق میں نازل ہوئی جیسا کہ آیت کا سیاق و سباق اس کیلئے شاہد ہے۔ جس کیلئے نہ کسی تاویل کی حاجت ہے اور نہ کسی توجیہہ کی ضرورت۔ اول سے آخر تک خطاب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے لیکن رسول اللہﷺ نے علی رضی اللہ عنہ ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس حکم میں داخل فرمایا اور ان کو جمع کرکے یہ دُعا فرمائی:
“اللهم هؤلاء أهلُ بيتي، فأذهب عنهم الرجسَ وطهرهم تطهيراً”.
19) اہل تشیع کی معتبر تفاسیر میں بھی اھل اور آل کا ترجمہ بیویوں سے ہی کیا گیا ہے مثال کے طو رپر مشہور شیعہ مفسر قرآن ملا مقبول دہلوی
’’وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ وَأَنتُمۡ تَنظُرُونَ‘‘
کا ترجمہ کرتے ہیں کہ: اور تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے فرعون والوں کو ڈبو دیا۔ (ترجمہ مقبول تحت آیت مذکورہ) اسی طرح ملاں فتح علی کاشانی
’’فَأَنجَيۡنَٰكُمۡ وَأَغۡرَقۡنَآ ءَالَ فِرۡعَوۡنَ‘‘
کے تحت لکھتے ہیں:
از اتباع و متعلقانِ فرعون۔
یعنی فرعون کے متبعین و متعلقین سے۔ (تفسیر منہج الصادقین جلد 1ص 182)
وإِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ أَهۡلِكَ تُبَوِّئُ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ مَقَٰعِدَ لِلۡقِتَالِۗ. (آل عمران:۱۲۱)
یہاں ’’مِنۡ أَهۡلِكَ‘‘ سے عائشہؓ مراد ہیں۔ شیعہ مفسّر فتح اللہ کاشانی لکھتاہے: [ وَإِذۡ غَدَوۡتَ] یاد کُن اے محمد (ﷺ) چوں بامداد بیرون شدی ’’مِنۡ أَهۡلِكَ ‘‘ از منزل عائشہؓ۔(تفسیر منہج الصادقین ص ۳۱۱ ج۲ تہران)
فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى ٱلۡأَجَلَ وَسَارَ بِأَهۡلِهِۦٓ ءَانَسَ مِن جَانِبِ ٱلطُّورِ نَارٗاۖ قَالَ لِأَهۡلِهِ ٱمۡكُثُوٓا. (القصص:۲۹)
شیعہ مفسّر ابو علی فضل بن حسن طبرسی لکھتا ہے:
( لِاَهْلِهِ) وَهِىَ بِنتُ شُعَيْبٍ كَانَ تَزَوَّجَهَا بِمَدِينَ.
(تفسیر مجمع البیان ص ۵ ج ۴ تہران) شیعہ مفسّر فیض کاشانی لکھتا ہے کہ: وَسَارَ بِاَهْلِهِ ( بِامْرَاتِهِ)(تفسیر صافی ص ۲۶۰ ج ۲ تہران)
یہ صرف چند مثالیں ہیں وگرنہ ہر مسلک کے مترجمین نے اھل کا ترجمہ بیوی سے ہی کیا ہے۔
20) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ ہم آپ ﷺ پر درود کیسے بھیجا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، یوں کہا کرو:
اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. (متفق علیہ)
یہ معروف درود ابراہیمی ہے اس میں لفظ آل کی وضاحت حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہو جاتی ہے جس میں خود رسول اللہ ﷺ ال کی وضاحت بیویوں اور اولاد سے کر رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے
حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَقَالَ: «قُولُوا: اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ. وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ. إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ».(مؤطا۔صحیح بخاری)
خلاصہ یہ ہوا کہ
اھل بیت رسول ﷺ میں ازواج مطہرات ، اور آپ کی اولاد شامل ہے جس میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
شاہ فیض الابرار صدیقی
یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالواحد المعروف محمد مسعود تبسم کاشمیری