پھر فرانس میں صدارتی سرپرستی میں سب سے مقدس آخری آسمانی کتاب قرآن حکیم کی بے حرمتی کا انتہائی گھٹیا سلسلہ شروع ہوا اور میڈیا پر قرآن جلا کر اس کی تشہیر کا سلسلہ شروع ہوا، اس بھیانک سانحہ پر بھی مظلوم اور بے بس امت پھر ایڑیاں اٹھا کر، گردنیں لمبی کر کے کسی مسیحا کی طرف دیکھنے لگی۔ اب کی بار بھی ستاون اسلامی ممالک کے حکام، سربراہان اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی حمیت جاگی۔ ایک شور مچا اور ہمیشہ سے کچھ نہ کر سکنے کے اسلام فروشی کے اعزازات سے مزین ملکی، ملی، سیاسی و مذہبی قیادت نے وہی بے حمیتی کا راستہ چنا کہ قرآن کی بے حرمتی کے مرتکب فرانس اور دیگر ممالک کے خلاف اپنی سڑکیں بند کر کے، ٹائر جلا کر، توڑ پھوڑ کر کے، قرآن جلانے والوں کی گردنیں چوکوں میں لٹکانے کے فلک شگاف نعرے لگا کر اور فرانس وغیرہ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے فرانس کے درو دیوار ہلا دیے جائیں اور قرآن کے تحفظ کے لیے جلسوں، ریلیوں، مظاہروں اور بڑے اجتماعات کا انعقاد کر کے کافر دنیا پر موت کا خوف طاری کر دیا جائے کہ آئندہ کسی سرکش میں اس جسارت کی ہمت پیدا نہ ہو۔ نعرے، بیانیے اور جوشیلی تقریروں نے عوام میں کافی جوش وجذبہ پیدا کیا اور ٹھیک کچھ وقت گزرنے کے ساتھ قرآن تو جلتا رہا پر غیرت و حمیت اور شہادت کی شوقین قیادت مع کارکنان کسی اور مہم میں جت گئے اور جہادی قافلوں کی روانگی، فرانس کی موت اور تباہی کا وقت نہیں آیا، یہ سانحہ بھی نعروں ، بیانیوں اور میٹنگوں کی نذر ہو گیا۔
ستاون ممالک کی قیادت، جن میں بڑے بڑے سورماؤں کے نام تھے، جن کی وحشت سے صنم سہمے اور رن کانپ اٹھتے تھے اور مذہبی جماعتوں کے بارعب اور بہادر نڈر قائدین جن کی دہشت سے کفر کے ایوانوں پر لرزہ طاری رہتا تھا۔ امت کے یہ کٹھ پتلی کردار جو حرمت رسول اور حرمت قرآن کے سانحات ٹھنڈے پیٹوں ڈکار چکے اور عوام کو بیوقوف بنا کر اپنے اہداف پر نظریں جمائے اسلامی پھریرے تھامے پرتعیش زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے اور نذرانے وصول کرنے کی نئی راہیں ڈھونڈ رہے تھے، کارکنان میں عقیدت اور عظمت کے اثرات گہرے کر کے اپنی ہر شب شبِ برات اور ہر روز روز عید بنا رہے تھے۔
پھر ایک المیہ اور بڑا سانحہ ہو گیا، سات اکتوبر کو حماس مجاہدین نے صیہونیوں کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا، دن میں تارے دکھا دیے اور ناجائز اسرائیل کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، زعم یہ تھا کہ اس کی پشت پر 57 اسلامی ممالک ، 2 ارب ان کے ہم مذہب مسلمان اور کھمبیوں کی طرح اگتی عالم اسلام میں سینکڑوں تگڑی جہادی تنظیمیں اور امریکہ کو تازہ تازہ شکست فاش دینے والے بہادر طالبان ہیں۔ 41 دن ہو گئے حماس اسرائیل افواج کے سامنے شیروں کی طرح جم کر کھڑے اور انسانی درندے کو مسلسل ہزیمت سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ جنگ کتنی طویل اور خطرناک ہو گی امریکہ اور اسرائیل تاحال اس سے بے خبر اور اس کے پھیلاؤ سے خوف زدہ اور سخت مضطرب ہیں، بہرحال حماس نے اپنا حق ادا کیا اور کر رہا ہے، ان کا جہاد، جاری جنگ اور دلیرانہ دفاع اور دہشت ناک حملے سبھی شرعی اصولوں اور قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں، اللّٰہ رب العزت کی بھر پور تائید ہی ان مٹھی بھر مجاہدین کو امریکی ہاتھی اور اسرائیلی بھیڑیے کے سامنے استقامت کا حوصلہ دے رہی اور اولوالعزمی کا ولولہ پیدا کر رہی ہے۔
حماس اسرائیل جنگ جہاں کفر و اسلام کا بہت بڑا معرکہ اور حق وباطل کی بڑی جنگ ہے، حماس اس جنگ میں تاحال ناقابل تسخیر، ناقابل شکست، اسرائیلی انٹیلیجنس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب اور اور ایک پیچیدہ پہیلی ہے، جس کی افرادی، حربی قوت اور اسلحہ کے ذخائر اور ذرائع کی کچھ معلومات نہیں ہیں۔ حق وباطل کی اس خوف ناک جنگ میں اسرائیلی درندہ اپنی ہزیمت، رسوائی اور جگ ہنسائی کا انتقام حماس اور القسام بریگیڈ سے تو نہ لے سکا، حماس کے تباہ کن حملوں کا سد باب تو نہ کر سکا لیکن اس زخمی درندے نے شکست کے داغ دھونے اور لڑاکا مجاہدین کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اپنی نسلی کمینگی کے عین مطابق اہل غزہ پر بارود کی بارش اور میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جوش انتقام پر تلے بدمست ہاتھی نے نہتے عوام کو خون میں نہلا دیا، انتہائی بے دردی سے بم اور میزائل برسا کر بچوں، عورتوں اور نہتے لوگوں کا قتل عام کیا۔ شہر برباد اور عمارتیں کھنڈرات بنا دیں، خون مسلم کو پانی کی طرح بہایا گیا، امریکہ اس کی پشت پر کھڑا اس کے مسلسل حوصلے بڑھا رہا ہے اور جو بائیڈن کا کل کا اسرائیلی سپاہ اور عوام کو پیغام کہ ذرا صبر ہم آپ کی تائید میں آ رہے ہیں اس بھیڑیے کو ظلم وبربریت پر ہانکا لگا رہا ہے۔
اہل فلسطین کا قتل عام، پانچ ہزار معصوم بچوں کے کٹے پھٹے لاشے، تین ہزار سے اوپر بارود کا رزق بن چکیں حوا کی بیٹیاں، تیرہ ہزار کے قریب بے گناہ قتل کر دیے گئے اہل فلسطین، بتیس ہزار سے زائد زخموں سے چور، اعضاء سے محروم بے علاج سسکتے زخمی، زندہ انسانوں کی بستی میں اس بے تحاشا ظلم اس درندگی اور حیوانیت پر اس بار امید کا چراغ جلا تھا کہ صدیوں سے مردہ ضمیر 57 اسلامی ملکوں کے سربراہ، دو ارب کا اتنا بڑا مسلم ہجوم، سینکڑوں جہادی تنظیموں کے جذبہ جہاد سے سرشار قائدین اور وینٹی لیٹر پر لگا او آئی سی کا مردہ لاشہ انگڑائی لے گا اور اس مرتبہ اس کھلی جارحیت اور قتل عام کا انتقام لیا جائے گا، اب کی بار مسلم قیادت بزدلی کی چادر اتار پھینکے گی، بے حمیتی سے تعلق توڑ ڈالا جائے گا، پون صدی سے ظلم سہتے اہل فلسطین کے لیے آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور ناجائز ریاست اسرائیل کو اس پاک سر زمین سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جائے گا، یا قصاصا موت کے گھاٹ اتارا جائے گا یا مار مار کر ارض قدس سے بھگا دیا جائے گا ۔ جہادی تنظیموں کے سربراہ ہر خطرے سے بے پروا ہو کر جہادی پھریرے لہراتے القدس پہنچ جائیں گے اور یہودی خنزیروں سے زندگی کا حق چھین لیں گے۔
لیکن وائے افسوس! بے غیرتی کی کوکھ میں پلی، امریکی بالادستی پر ایمان لا چکی اسلامی قیادت اور دولت کی لکشمی کے اسیر سنہری جبوں اور سرخ رومالوں والے کبر ونخوت کی بلندیوں کو چھوتے احساس سے عاری شاہان عرب، گردن میں موٹا سریا ڈالے، امت مسلمہ کا روگ ایران کے سید زادے، بے شرمی کا تمغہ بسالت سجائے عجم کے سربراہان او آئی سی کے دوسرے بڑے اکٹھ میں اسرائیل کے خلاف تادیبی اور انتقامی کاروائی تو کجا اسرائیل کے لیے تیل، گیس اور اسلحہ کی فروخت کی پابندی پر متفق نہ ہو سکے اور بقول شاعر:
نشستند و گفتند و برخاستند پی مصلحت مجلس آراستند
کا بے حمیتی کا داغ لیے کوئی بھی مؤثر فیصلہ کیے بغیر اڑن چھو ہو گئے۔ ایک طرف مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، خون مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے، بچے دہشت زدہ ، عورتیں سہمی سہمی، نوجوانوں کے اعصاب چٹخ رہے ہیں ، بوڑھے فریاد کناں کہ دو ارب مسلمانوں کے جیتے جی ان کی نسل کشی پر تلا منہ زور اسرائیلی بھیڑیے کے مقابلے میں آ کر کوئی مسلم دیش انھیں یہود کے قہر سے بچائے، عورتوں نے بلک بلک کر اللّٰہ کا واسطہ دے کر امت مسلمہ کو پکارا ، ان کی فلک گیر چیخوں سے پہاڑ پھٹ جائیں مگر امت کی ان دلاری بیٹیوں کی آواز پر کوئی ایوبی، طارق، ابن قاسم نہ جاگا اور نہ کسی نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ان کی فریاد پر کان دھرا۔

دو ارب بے ضمیر لوگوں کے بے حمیت ریوڑ سے کوئی ان کے آنسو پونچھنے اور تسلی دینے بھی نہ پہنچ پایا جب کہ اسرائیلی غنڈے کا سرپرست امریکی صدر تل ابیب میں کھڑے ہو کر اسلامی دنیا کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑاہے، امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن پے در پے تین دورے کر کے اس کی پیٹھ ٹھونکتا ہے اور ایک پریس کانفرنس میں ببانگ دہل کہتا کہ وہ امریکی وزیرِ خارجہ سے زیادہ بطورِ یہودی ہونے کے آپ کی حمایت کے لیے وارد ہوا ہے، زندگی کا پجاری اور موت کے سائے سے خوف کھاتا بلنکن یہودی صرف تل ابیب ہی نہیں بلکہ اسرائیلی ٹینک پر سوار جنگی لباس پہن کر ویسٹ بینک پہنچتا ہے، برطانوی وزیراعظم اسلحے کا جہاز بھر کر اسرائیل پہنچتا ہے کسی کو کوئی موت نہیں آئی اور نہ پیچھے سے ان کے عہدوں پر کوئی قابض ہوا۔
لیکن 57 اسلامی ممالک کے شیر دل لیڈروں، چوڑے سینوں اور تنی گردنوں کے بہادر فوجی جرنیلوں، جہاد اور مذہب کے نام پر کروڑوں اربوں کے چندے ڈکارنے والی جہادی تنظیموں کے سالاروں اور شہادت کے متمنی دلیروں میں سے کوئی بارود سے دوزخ کا روپ دھارے انسانوں کے سب سے بڑے قبرستان غزہ میں نہیں پہنچا، غزہ تو دور کوئی آس پاس کے ملکوں میں جا کر دھاڑنے چنگھاڑنے اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اداکاری بھی نہ کر پایا۔
بے حسی کی انتہا تو یہ کہ اسلامی ممالک اسرائیل کے مکمل بائیکاٹ پر متفق بھی نہ ہو سکے۔ غیرت مند شاہ فیصل کے وارثوں کو تیل کی فروخت، قطر کو گیس کی کمائی اور ترکی کو اسلحہ بیچنے سے ملنے والے ڈالر خون مسلم سے زیادہ عزیز ٹھہرے۔ مذہبی دکانداروں نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے اور چندہ کھرا کرنے کے لیے پھر سے اسرائیل کو عبرت ناک سزا دینے کے لیے پرانی ڈگڈگی بجائی ، سرکس کے شیروں اور ناجائز کمائی سے پلنے والے بے حمیت ہیجڑوں نے احتجاج اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے زنانہ فیصلے کیے اور بے غیرتی کے خمیر میں گندھے دین فروش، چندے پر پلے مردہ ضمیر احساس سے عاری قائدین نے ملین مارچ کرنے، ٹائر جلا کر روڈ بند کر کے دھواں پھانک کر امریکہ اور اسرائیل کو دھمکیاں دینے اور سادہ لوح کارکنان کو رام کرنے کے لیے ہاتھ اٹھوا کر عزت سے جیے تو جی لیں گے یا جام شہادت پی لیں گے کہ وعدے لے کر کروڑوں اربوں کے گھروں اور مراکز میں متنوع اقسام کے کھانے اور کھابوں سے لطف اندوز ہوتے اسرائیل کو مٹانے کے منصوبے بنانے لگے، کارکنان سے اس مد میں مال کیسے بٹورنا اور انھیں حماس کی فتوحات کے کون سی فرضی کہانیاں سنانیں، اسرائیل پر امیر محترم کی کس قدر دہشت ہے، اسرائیلی پارلیمنٹ میں کس جگاڑیے کی کتنی قدآور تصویر آویزاں کرنی ہیں؟ پرتعیش، گرم بالا خانوں اور شہداء کے خون سے خریدی خوشبوؤں سے معطر کمروں میں مذہبی اور جماعتی چورن بیچنے کے مشاورتی اجلاس ہونے لگے اور جہاد فلسطین کا آغاز کرنے کے برعکس تان یہاں پر ٹوٹ کہ بھر پور ریلیوں ؛ احتجاجوں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے امریکہ واسرائیل کی کمر توڑی جائے اور انھیں چاروں شانے چت کر کے فلسطینیوں کے خون کا بدلہ لیا جائے۔

فاروق رفیع