ایک جامع کمالات ہستی کا نام حاجی امام دین بیگم کوٹ والے تھا۔
وہ تو تبلیغ کا استعارہ تھے اس دور میں جب راوی پار سے لیکر شرقپور شیخوپورہ کامونکی قصور اور پتوکی تک کوئی اہل حدیث مسجد نہ تھی۔ اس مرد صالح نے بیگم کوٹ میں توحید کا دیا جلایا۔ سارے علماء اسی مسجد سے وابستہ تھے آج بیگم کوٹ اہل حدیث کا بڑا گڑھ بن چکا ہے۔

کیا حافظ سعید جماعۃ الدعوہ والے کیا مولانا محمود میرپوری برطانیہ والے اور ان سطور کا راقم بھی انہی کی سرپرستی میں جوان ہوا ۔مولانا محمد ارشد جیسے ولی اللہ کی ایسی سرپرستی کی کہ ان کی اولاد مدینہ یونیورسٹی تک پہنچ گئی بیگم کوت میں میاں فضل حق علیہ الرحمہ کے ساتھ مل کر کتنے کنال کا مرکز و مدرسة البنات بنایا جسے حاجی صاحب کی دختر نیک اختر اور مولانا محمد ارشد کے حرم نے ایک مثالی توحید و سنت کا مرکز بنادیا۔

حضرت حاجی امام دین نے علامہ شہید کی بھی سرپرستی کی اور عسر و یسر میں ان کا ساتھ دیا ۔جسے علامہ صاحب کبھی نہیں بھول سکے تھے ۔ ان کی وجہ سے امام کعبہ الشیخ محمد بن ابن السبیل رح بیگم کوٹ تشریف لائے اور مدرسة البنات کا افتتاح فرمایا ( اور شرف مجھ خاکسار کو حاصل ہوا کہ اما م صاحب کے خطبہ استقبالیہ میں اس عاجز کا بھی حصہ تھا۔ حاجی صاحب کی دین سے والہانہ لگن سے ایک جہان مستفید و متعارف ہوا۔

حضرت مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے اپنے بیٹوں کے نام حاجی صاحب کے بیٹوں کی مشابہت سے رکھے۔ حاجی صاحب کا بس چلتا تو آج بیگم کوٹ چوک میں نرسری کے اوپر بڑی جامع اہل حدیث بنی ہوتی ۔ بڑے بڑے چوہدریوں کو تبلیغ کرکے کرکے انہیں توحید کا شیدائی بنا ڈالا ۔وہ چلتے پھرتے چوبیس گھنٹے کے للّٰہ فی اللہ مبلغ تھے۔

ان کی شخصیت بڑی جامع تھی۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے ۔ ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی مثالیں مزید پیدا فرمائے۔ جب بھی تاریخ لکھی جائے گی حاجی امام دین صاحب بیگم کوٹ کانام اور کام ٹاپ پر لکھا جائے گا۔ آمین یا رب العالمین۔

حافظ عبدالاعلی درانی، برطانیہ