ایک مدخلی دوست کے جواب میں۔۔۔!
دوست کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہر موقع پر اپنے بچاؤ کی تدبیریں اپنائی ہیں۔ فلسطینی مزاحمت نے یہودیوں پر حملے میں پہل کر کے اسوۂ رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے۔
جواب میں یوں تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن سر دست صرف تین نکات کی روشنی میں اس نظریے کا سطحی پن واضح کیا جا سکتا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ دنیوی اسباب ووسائل اپنانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ضرور دیا ہے لیکن “حسب استطاعت” انہیں اختیار کر لیا جائے تو حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے:
{واعدوا لهم ما استطعتم من قوة}
دوسری طرف دشمن پر غلبے کے کچھ دیگر اسباب بھی قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، تفرقے میں نہ پڑیں، دشمن سے ٹکراؤ کی صورت درپیش ہو تو آپس میں اختلاف رائے نہ کریں تاکہ دشمن کے مقابل ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں، دنیا کی محبت اور موت کے ڈر کو دل کے قریب نہ پھٹکنے دیں، صبر اختیار کریں، ثابت قدم رہیں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں (نہ کہ دین دشمن اولیاء الامر کی) یہ سب باتیں بھی اللہ تعالیٰ نے دشمن پر غلبے اور ملک گیری کے اسباب و وسائل کے طور پر بیان کی ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کے دشمنوں کو نبی کریم ﷺ کے اسوے سے پہلے حکم پر عمل تو نظر آ گیا لیکن انہیں ان دوسرے احکام پر عمل نظر کیوں نہیں آتا؟ حالانکہ دنیوی اسباب میں مسلمان دشمن سے کمزور بھی ہوں تو بعد والے دینی اسباب اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کمزوری کا ازالہ فرما دیتا ہے جیسا کہ جنگ بدر میں فرمایا لیکن بعد والے اسباب میں کوتاہی ہو تو ایٹم بم بھی کسی کام کے نہیں رہتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دشمن سے آمنا سامنا ہو جائے تو اختلاف رائے کی اجازت ہی نہیں ہے تاکہ عین جنگ کے ہنگام مسلمانوں کی صف میں دراڑ نہ پڑے۔ پڑھیے اللہ تعالیٰ کا فرمان:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (45) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (46) (الانفال)
منافق مدخلی ٹولے نے عین ہنگام جنگ میں مسلمانوں پر زبان کے تیر و نشتر برسا کر اور دشمن کے ساتھ ساز باز کر کے دشمن کا سینہ ٹھنڈا کیا اور اہل ایمان کا جی جلایا۔ کیا یہ اس بے حمیتی کا جواز اسوۂ رسول ﷺ سے لانا چاہتے ہیں؟؟؟ انہیں ایسی نکتہ آفرینیاں کرتے ہوئے اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟
تیسری بات یہ ہے کہ اگر مجاراة مع الخصم کے طریق پر اسے ہم مجاہدین کی غلطی مان بھی لیں تو ان کی اس غلطی سے مدخلی ٹولے کو یہ جواز کیسے مل گیا کہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر صیہونیوں کی صفوں میں جا کھڑے ہوں؟ کیا اس کا بھی کوئی جواز اسوۂ رسول ﷺ سے پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس کے برعکس نبی کریم ﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے جب جنگ احد میں ایک غلطی ہوئی اور اس غلطی کا خمیازہ مسلمانوں کو نقصان اور ہزیمت کی صورت میں بھگتنا پڑا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں جنگ کے بعد نہ تو مدینہ سے نکالا، نہ جنگ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کرام کی طرح ان کا مقاطعہ کروایا، نہ انہیں کوئی سرزنش کی، نہ کوئی سزا دی، نہ ان پر زبان کے تیر و نشتر برسائے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔۔۔ اس لیے جب ذہن پر کسی گمراہ فرقے یا زندیق شخصیت کی عصبیت کے تالے چڑھے ہوئے ہوں تو ایسے لوگوں کو اسوۂ رسول ﷺ کا نام نہیں لینا چاہیے۔
https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=24455108824160015&id=100002627118558&rdid=XxBjXgkcZhUWjnva#
محمد سرور