کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یہ عمومی قاعدہ ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
’’جو شخص بھی کوئی برا کام کرے گا تو اس کا بوجھ اسی پر ہوگا، کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔‘‘ (الأنعام : ١٦٤)
[نیز دیکھیے: سوره الإسراء: ١٥، الفاطر: ١٨، الزمر: ٧، النجم: ٣٨]
اس پر دیگر بھی کئی ایک دلائل ہیں۔
لیکن اگر کوئی بلا علم کسی کو گمراہ کرے، غلط راستے پر ڈال دے تو وہ ان کا بھی بوجھ اٹھائے گا:
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ
’’تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور ان کے بھی بوجھ کہ جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔ سن لو! برا ہے جو بوجھ وہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘ (النحل : ٢٥)
اسی طرح اگر کسی عامی کو بلا علم فتوی دے دے اور وہ اس پر عمل کر لے تو گناہ مفتی پر ہو گا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسی فتویٰ دینے والے پر ہے، اور جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بھلائی و بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے، تو اس نے اس سے خیانت کی۔‘‘ (سنن ابی داود : ٣٦٥٧ وسندہ صحیح)
اس پس منظر میں اگر کوئی ایسا اجتہادی مسئلہ جس میں اجماع نہ ہو، کوئی عالم اجتہاد کرتے ہوئے ایک رائے اپنائیں اور عامی مستفتی کو قائل کرنے کے لیے کہہ دیں کہ آپ عمل کریں، اگر گناہ ہوا تو میرے ذمے ہے۔ مقصد اپنی رائے پر اعتماد ظاہر کرنا ہو، نہ کہ تعلی و تکبر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے نظائر و مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
مثلا؛ قرآن مجید میں آیت ہے:
الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
’’زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔‘‘ (سورہ النور: 3،ترجمہ شیخ بھٹوی رحمہ اللہ)
اس آیت میں نکاح سے کیا مراد ہے، علماء کی آراء میں تفصیل ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے میں یہاں نکاح کا معنی وطی/جماع ہے۔
ایک شخص نے آ کر اُن سے پوچھا، میں ایک عورت سے زنا کیا کرتا تھا، اب توبہ تائب ہو چکا ہوں، اب اس سے نکاح کا ارادہ ہے جبکہ کچھ لوگ آیت کی رو سے کہہ رہے ہیں : ’’زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے۔‘‘ تو سیدنا عبد اللہ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا، اس آیت کا محل یہ نہیں ہے؛
انْكِحْهَا فَمَا كَانَ مِنْ إِثْمٍ فَعَلَيَّ.
’’آپ اس عورت سے نکاح کر لو، جو گناہ ہو گا وہ میرے ذمے ہے۔‘‘ (تفسير ابن أبي حاتم : ١٤١٢٠ وسنده حسن، وانظر : الأحكام الكبرى لعبد الحق : ٤/ ١٧٥، المدونة : ٢/ ١٧٣)
شیخ ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس کی سند حسن ہے۔‘‘ (الجامع الكامل : ١٠/ ٥٧٧)
یہاں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا گناہ کو اپنے ذمے لینے کا مطلب اپنے فتوے اور موقف پر اپنے اطمینان کا اظہار تھا نہ کہ گناہوں کے متعلق بے خوفی و عدم احتیاط ۔ واللہ أعلم۔
حافظ محمد طاھر