سوال (2012)

عقیقہ کے بعد بچے کا بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنا اس حوالے سے کوئی روایت ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ کیا وہ روایت صحیح ہے؟

جواب

جی اس بارے حسن درجہ کی روایت ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بکری کے ساتھ عقیقہ کیا اور فرمایا:
اے فاطمہ! اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو۔
[جامع ترمذی: 1519 مزید دیکھیں ارواء الغلیل 1175]

فضیلۃ الشیخ ریاض عاقب اثری حفظہ اللہ

ساتویں دن نومولود بچے کے بال منڈھوانا تو حدیث سے ثابت ہے۔ [ابوداؤد: 2838، سندہ صحیح]
لیکن ان بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس حوالے سے [سنن الترمذی: 1519] جو روایت ہے، اس کی سند میں انقطاع ہے، اسی طرح محمد بن اسحاق بن یسار ضعیف راوی ہے۔
لہذا ساتویں دن نومولود کے سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کے حوالے سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

ہمارے علم کے مطابق بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کے بارے کوئی روایت شروط صحت پر پورا نہیں اترتی ہے۔
سنن ترمذی: 1519 کی روایت میں دو علتیں ہیں، محمد بن اسحاق کے سماع کی صراحت نہیں ہے، محمد بن علی بن الحسین کی سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے، امام العلل امام ترمذی رحمہ اللہ نے یوں وضاحت کر رکھی ہے۔
“ﻭ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻟﻴﺲ ﺑﻤﺘﺼﻞ ﻭ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﻟﻢ ﻳﺪﺭﻙ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ]
[سنن ترمذی: 1519]
مزید ابن القطان الفاسی کا کلام [بیان الوهم والإيهام :3/ 32] میں دیکھیے۔
ابو رافع رضی الله عنہ سے مروی روایت جو (مسند أحمد :27183) ،مصنف ابن أبی شیبہ: (24234)، الجعدیات:(2295) وغیرہ میں ہے کی سند میں شریک بن عبد الله القاضي سیئ الحفظ اور محمد بن عبد الله بن عقيل راوی منکر الحدیث، سیئ الحفظ ہے ایسے راوی کا تفرد احکام میں قوی متابعت اور صحیح شاہد کے بغیر قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔
ابو رافع رضی الله عنہ سے یہی روایت مسند أحمد(27196) ،المعجم ا لکیر للطبرانی وغیرہ میں ہے۔
اور سند میں ابن عقیل راوی ہے ، جو منکر الحدیث احکام کی روایت میں ضعیف ہے۔
شریک القاضی کی دو لوگوں نے متابعت کر رکھی ہے، مگر عبد الله بن محمد بن عقيل راوی پر ائمہ نقاد نے کافی سارا کلام کلام کر رکھا ہے، جس کا تعلق ضبط کے ساتھ ہے، اس کا ضبط ایسا نہیں ہے کہ اس کی احکام میں منفرد روایت قابل احتجاج ہو، جبکہ امام احمد بن حنبل نے اس پر منکر الحدیث تک کی جرح کر رکھی ہے ۔
سیدنا انس رضی الله عنہ سے مروی روایت جو مسند بزار السنن الکبری للبیھقی وغیرہ میں ہے اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف مختلط ہے۔
اس روایت کی دیگر ضعیف اسانید کے لیے دیکھیے [السنن الکبری للبیھقی: 19296 تا 19300]
البتہ بعض اہل علم نے اسے حسن لغیرہ کے مرتبہ کا کہا ہے، مگر خیر القرون میں اس پر عمل معروف رہا ہو ہمیں معلوم نہیں ہے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ