عزم و ہمم کے یہ کوہِ گراں تو جنگ اور معرکوں سے الگ ہی پیمانے رکھتے ہیں، اِن کے اعلا امتیازات اور بالا خصوصیات تو جاں بازی اور جاں سپاری کی کسی ایسی بھٹّی میں سلگ کر کندن بنتی ہیں کہ جو تمھارے گمان اور دھیان کی دسترس سے بھی ماورا ہے۔اِن کی جولاں گاہوں اور کچھاروں میں موجود ہر فوجی جوان نعرہ ء تکبیر کی بازگشت سے اپنے ایمان کی زلفوں کو سنوارنا ہے۔جب دشمن جینا دوبھر کر دے، جب عدوئے ملّتِ اسلامیہ جنگ مسلّط کر دے تو پھر اعتدال کی تمام حدود و قیود کو پھاند کر ہمارے یہ آشفتہ سَر اور صف شکن مجاہد اپنے ہر دشمن کو خائب و خاسر کر دیا کرتے ہیں۔اِن کے جذبوں کی جولانی اور شتابی تحریکِ آزادی سے شروع ہو کر شہادت پر ہی منتج نہیں ہوتی بلکہ ایمان کی فراوانی دلوں میں ایسے اَن گنت احساسات اجال دیتی ہے کہ شہادت کے بعد مَیں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید ہو جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید ہو جاؤں اور پھر دنیا میں آؤں اور شہادت کے مقام اور مرتبے پر فائز ہو جاؤں۔شہادت کی لذتوں اور شِیرینیوں سے آشنا ہمارے سبھی جوان ایسے ہی جذبوں سے آراستہ و پیراستہ ہو کر شہادت کے راستوں پر گامزن ہو جاتے ہیں۔دشمن اپنی سماعتوں کے پلُو سے یہ حقائق بھی باندھ لے کہ یہاں شہادتوں پر گریے، نوحے اور واویلے نہیں ہُوا کرتے، ہمارے دلوں کی دھڑکنوں، ہمارے ذہنوں کے اطراف اور ہمارے احساسات کے اکناف میں حُبّ دنیا کا گزر تک نہیں ہوتا۔صحراؤں کے طویل سلسلے ہوں یا میدانوں کی وسعتیں، بحروبر کے لامتناہی حصّے ہوں یا آسمانوں کی رفعتیں، وہ چناروں کی وادیاں ہوں یا پربتوں کی شہزادیاں، یہ جری جوان، دشمنوں کا تعاقب کر کے ہر جگہ سے کھوج نکالتے ہیں، یہ قذاقوں کے عزائم ادھیڑ دیا کرتے ہیں، وہ ظلم زادے ہوں یا جبروتشدّد کے پروردہ، یہ اُن سب کے مسلم دشمن مقاصد کو چیر ڈالنے کے فن آشنا ہیں۔
یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنانے والے مودی! جبروجور کے حصار سے باہر نکل کر تاریخ میں دُور افق تک اِن کے لہو کی سرخی اور تابانی دیکھ کر تیری آنکھیں چندھیا جائیں گی۔بھول گیا تُو 1965 ء کا وہ گہرا گھاؤ، جس نے تمھیں مِنتوں اور ترلوں پر مجبور کر دیا تھا۔1965 ء کی اُس جنگ میں 9 ہزار پانچ سو فوجیوں کو اگلے جہان پہنچا دیا گیا تھا۔بھارت کے 472 ٹینک تباہ اور 110 جنگی طیارے فضا میں ہی تحلیل کر کے رکھ دیے گئے تھے، کیا تمھیں یاد نہیں کہ کارگل میں اگر سازش نہ ہوتی تو تمھارا کیا حشر ہوتا؟ لیکن سازشوں کے باوجود تمھیں چَھٹی کا دودھ یاد آ گیا تھا، بھارت کے 30 ہزار فوجی کارگل کا رزق بنا دیے گئے تھے۔دنیا جانتی ہے کہ 1971 ء میں جنگ نہیں سازش ہوئی تھی جس پر مودی کو چھاتی چوڑی کرنے کی ضرورت نہیں، سازشوں کی وہ ہنڈیا کب کی پھوٹ چکی، اب نہ بھارتی سازش چلے گی نہ جنگ کی دھونس ایک انچ بھی آگے بڑھنے دی جائے گی۔آج امریکی ویب سائٹ ” ٹاپ ٹین “ بھی یہ مانتی ہے کہ پاکستان کی فوج، امریکی اور برطانوی فوج سے بھی بہتر ہے،برطانیہ کا سابق آرمی چیف سرنکولس کارٹر بھی پاکستانی فوج کا مداح تھا۔
بھارتی فوج کی نااہلی کے واقعات اب ڈھکے چُھپے نہیں رہے، مودی نے آج تک اپنی فوج سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ 2016 ء میں چین کی جدید ترین یوآن کلاس 335 آبدوز، عملے کے 65 افراد اور خطرناک ہتھیار تارپیڈو اور میزائلوں سمیت بھارتی سمندری حدود سے گزر کر کراچی سے ری فیولنگ کروا کر واپس چین کیسے پہنچ گئی تھی؟ بھارتی انٹیلی جنس کو کانوں کان خبر کیوں نہ ہوئی تھی؟
بھارتی میڈیا کتنی ہی بار یہ واویلا کر چکا ہے کہ اگر پاکستان اور چین نے مل کر بھارت پر حملہ کر دیا تو بھارت کا کیا بنے گا؟ بنے گا یہی کہ بھارت کے صرف 52 ٹکڑے ہوں گے۔(ان شاءاللہ )۔
مودی کتنی ہی بار کہ چکا ہے کہ پاکستان پر حملہ کر دوں گا، کبھی وہ کہتا ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دوں گا مگر بھارت میں اتنے تپّڑ نہیں ہیں کہ وہ اپنی کسی بھی نامراد خواہش کو عملی جامہ پہنا سکے۔مجھے بھارتی ماؤں پر بڑا ترس آتا ہے جو اکثر وبیشتر اپنی آنکھوں میں اشکوں کے انبار لیے فریاد کناں رہتی ہیں کہ ہم اپنے بیٹوں کو کشمیر نہیں جانے دیں گی کیوں کہ اگر وہ کشمیر گئے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔کاش! مودی اور بھارتی آرمی چیف کشمیر میں شہید ہونے والے نوجوانوں کی ماؤں اور بہنوں کے جذبات سُن سکتے جو اپنے جوان بیٹوں کو خود تیار کر کے شہادت کے لیے روانہ کرتی ہیں۔وہ کشمیر کے حریت پسندوں کی دلیر مائیں ہوں یا پاکستان کے سات لاکھ کے قریب فوجی جوانوں کی نڈر مائیں، اِن میں سے ایک ماں بھی ایسی نہیں جو اپنے بیٹے کی جان کو وطن پر مقدّم سمجھتی ہو، کوئی ایک باپ بھی ایسا نہیں جو وطن پر اپنے بیٹوں کو قربان کرنا اعزاز و افتخار نہ سمجھتا ہو۔بھارت کی ساڑھے تیرہ لاکھ فوج میں کوئی ایک ہی ایسا فوجی ڈھونڈ کر دِکھا دو جو بہ رضا و رغبت مرنے پر آمادہ ہو۔
ہماری مائیں ہمیں اسلام, پاکستان اور کشمیر پر قربان کرنے کے لیے پال پوس کر جوان کرتی ہیں۔ہم ہندو فوجیوں کی طرح بے روزگاری سے تنگ آ کر اپنی فوج کا حصّہ نہیں بنتے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے زندہ رہنے اور مّر جانے کے پیمانے اور اصول ساری دنیا سے جدا اور سوا ہیں۔تاریخ کے اوراقِ پارینہ ہوں یا صفحاتِ نوزائیدہ، کتنی ہی صبحیں ہیں جو ہمارے لہو سے فروزاں ہوئیں، کتنی ہی شامیں ہیں جو ہماری جراَت اور بہادری کو دیکھ کر سکون اور استراحت کی چادر تان کر سو گئیں، کتنی ہی راتیں ہیں جو ہمارے ایمان کی حدّت اور عقیدت کی دودھیا کرنوں میں نہا گئیں۔کتنے ہی چاند ستارے ہمارے لہو کی تابانی کو دیکھ کر شرمندہ ہو گئے، کتنے ہی سورجوں کے اجالے یاسین ملک کے ولولوں کی تاثیر اور تنویر کے سامنے ہیچ پڑ گئے۔