20 جنوری 1969ء کو رچرڈ نکسن (Richard Nixon) امریکہ کا سینتیسواں صدر بنا۔ 21 اگست 1969ء کو یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو جلانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے رد عمل میں 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں دنیا کے ستاون ”مسلم ممالک“ کی‏ مشترکہ تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا۔

پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد دیکھ کر یہودیوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ امریکی یہودیوں کا ایک وفد پریشانی کے عالم میں صدر نکسن کے پاس پہنچ گیا اور کہا: اب تو اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔ نکسن نے تحمل سے ان کی بات سنی اور‏اپنے مخصوص انداز میں کافی کی چسکی بھرتے ہوئے یہودیوں سے پوچھا: کیا کبھی کسی خواجہ سرا کے یہاں بھی بچہ ہوا ہے؟ جواب نفی میں ملا تو امریکی صدر نے کہا: یہ مسلم حکمراں بھی خواجہ سرا ہیں۔ ساری دنیا کے خواجہ سرا بھی مل جائیں تو ایک بچہ پیدا نہیں کر سکتے، لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ‏چنانچہ رچرڈ نکسن کی اس بات پر وقت نے مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ او آئی سی نامی یہ بے مصرف تنظیم مسلمانوں کا ایک مسئلہ بھی حل کرانا تو دور کی بات اس جانب ایک انچ بھی پیش رفت نہ کر سکی۔ بلکہ مسجد اقصیٰ کو بھی عملاً یہودیوں کے حوالے کرچکی، جس کی حفاظت کیلیے یہ تنظیم بنی تھی۔ اب تو خود‏عرب ممالک اسرائیل کے چرنوں کو چھوتے اور اس سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے نظر آتے ہیں۔

دو برس پہلے بھی یہ ہیجڑے اسلام آباد میں افغان مسئلے پہ جمع ہوئے تھے۔ بس، نشستند و خوردند و گفتند و برخاستند۔۔۔ آج تک کسی ایک نے بھی افغان حکومت تسلیم کرنے کا سوچا ہے؟ اسی سال قرآن کی توہین پہ یہ‏  جدہ میں ہنگامی طور پہ جمع ہوئے تھے۔ مگر توہین رکوا سکے؟ اب ایک بار پھر ان کا یہ اجتماع جدہ میں ہوا اور دجالی ریاست سے چند مطالبات پہ ختم ہوگیا۔ گفتار کی یہ مشق نصف صدی سے جاری ہے۔ مگر نتیجہ زیرو۔ ظاہر ہے ہزار نہیں اربوں زیرو بھی مل جائیں نتیجہ زیرو ہی نکلتا ہے۔ منقول