ایک مخلص اور پرعزم بزرگ۔۔۔۔۔۔بابا جی علی احمد صاحب رحمہ اللہ

13 ستمبر 2022ء بروز منگل ظہر سے قبل تقریبا پونے گیارہ بجے کا وقت ہوگا، جب میں جامعہ بلال الاسلامیہ یوکے سنٹر لاہور میں، رابعہ کلاس میں سبق پڑھا رہا تھا۔ کہ والد صاحب کے نمبر سے مسلسل کال آنا شروع ہوگئی۔ کال سنی، تو والد محترم نے بتایا کہ: ’چاچا علی احمد فوت ہوگیا ہے’۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ہمارے ایک بزرگ تھے جن کا نام تھا رستم، ان کے تین بیٹے تھے، جن میں سے ایک کا نام تھا عمر دین۔ ان کے آگے پھر چار بیٹے تھے۔ عبد الرحمن، محمد، اسماعیل اور ابراہیم۔
ابراہیم کے دو بیٹے تھے، جن میں سے ایک کا نام ’علی احمد‘ تھا۔ اور وہ یہی ہمارے مرحوم بزرگ ہیں۔
محمد کے سات بیٹے تھے، جن میں سے ایک کا نام عبد الکریم تھا۔ آگے ان کے چار بیٹے ہیں، جن میں بڑے بیٹے کا نام محمد الیاس ہے۔ جو کہ میرے والد صاحب ہیں۔
یہ تھوڑی تفصیل صرف اس لیے ذکر کی ہے، تاکہ یہ بات سمجھ آ جائے کہ مرحوم بزرگ کے ساتھ ہماری نسبی اور خونی رشتہ داری کیا تھی۔ گویا تین پشتیں اوپر جا کر ہم دونوں خاندانوں کے جدِ امجد عمر دین مرحوم ہیں۔
میں اسی مناسبت سے بزرگورام علی احمد صاحب کو ’بابا جی‘ کہتا تھا۔ کیونکہ ہمارے ہاں ’دادا‘ کے لیے ’بابا‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
پھر بعد میں انہیں کی لختِ جگر امِ حمدان سے میرا نکاح ہوگیا، تو دوہری رشتہ داری ہوگئی۔ اب اتنی دلچسپ رشتہ داری ہے کہ ساس اور سسر دونوں بزرگوں کو میں دادا اور دادی کہہ کر پکارتا ہوں، جبکہ میرے بچے نانا اور نانی کہتے ہیں۔
بابا جی علی احمد صاحب تقسیم پاکستان کے دو سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس حساب سے آپ کی عمر تقریبا 73 سال بنتی ہے۔
آپ نے ان بھلے وقتوں میں ایف ایس سی کی تھی۔ جب دیہاتوں میں خال خال لوگوں نے سادہ مڈل یا میٹرک ہی کیا ہوتا تھا۔
چونکہ گاؤں میں پڑھے لکھے تھے، اس وجہ سے عرصہ دراز تک، بچوں کو اپنے گھر میں اکیڈمی بھی پڑھاتے رہے۔ اسی مناسبت سے ان کے شاگرد انہیں ’چاچا جی‘ بھی کہا کرتے تھے۔ شاید اس وقت گاؤں میں یہ طریقہ کار تھا کہ پڑھانے والے کو ’استاد، سر، ماسٹر‘ وغیرہ کہنے کی بجائے طالبعلم ’چاچا جی‘ کہتے ہوں گے۔ کیونکہ انہیں بزرگوں کے ہم عمر ایک اور بزرگ ’چاچا جی نذیر صاحب مرحوم‘ بھی اسی سابقے سے معروف تھے۔ جنہوں نے باقاعدہ ’سلفی ماڈل سکول‘ کے نام سے کئی سال بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست کیا۔ میری ابتدائی تعلیم بھی اسی سکول کی تھی۔ بڑے عظیم، اور صالح انسان تھے۔ عرصہ ہوا، وفات پاچکے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ دو بیٹے تھے، بڑا بیٹا سہیل عین جوانی کی عمر میں اللہ کے رستے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ بیٹیاں بھی سب مل کر اسکول میں پڑھاتی تھیں، پھر بعد میں سب اپنے اپنے گھروں والی ہوگئیں۔ پورے خاندان نے ہمیں اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں بہنوں کی طرح شفقت و محبت سے نوازا۔ اللہ سب کو بہترین جزا عطا فرمائے۔
أُس وقت کے یہ بزرگ اساتذہ صرف بچوں کو اسکول کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ ساتھ ساتھ نماز روزہ، دینی آداب و اخلاق بھی سمجھاتے تھے۔ دونوں بزرگوں، علی احمد صاحب اور نذیر صاحب کے شاگرد یقینا اس بات کی گواہی دیں گے۔

بابا جی علی احمد صاحب کے خصائلِ حمیدہ:

مرحوم بزرگ کئی ایک خوبیوں اور صفات سے مالا مال تھے، جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتاہے:
1۔ مرحوم حقوق اللہ یعنی عبادات کی ادائیگی کے بہت پابند تھے۔ فرائض کے ساتھ ساتھ تہجد اور اشراق جیسے نوافل کی بھی پابندی کیا کرتے تھے۔
اہلیہ بتاتی ہیں، جب سے ہم نے ہوش سنبھالی ہے، ہمیں نہیں یاد کہ والدِ محترم نے کبھی تہجد یا اشراق کی نماز چھوڑی ہو۔ بلکہ گاؤں کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ عموما تہجد کی اذان مرحوم بزرگ ہی دیا کرتے تھے۔
جمعہ کے لیے پہلے سے آکر، اول صف میں موجود ہوتے تھے۔ گاؤں میں جتنے بھی خطباء ہیں، شاید کسی نے یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ خطبے کے لیے آئے ہوں، اور بابا جی علی احمد صاحب وہاں موجود نہ ہوں۔
2۔ صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی مرحوم کا نمایاں وصف تھا۔ تمام رشتہ داروں، عزیز و اقارب کی خبرگیری کرنا، وقتا فوقتا ملتے رہنا، خوشی غمی پر پابندی سے پہنچنے کا بالخصوص اہتمام کیا کرتے تھے۔ اسی طرح دوست احباب اور رشتہ داروں کو نماز روزہ کی بھی تلقین کیا کرتے تھے۔
3۔ مہمان نوازی: مرحوم کا ایک نمایاں وصف یہ تھا کہ مہمان نواز تھے۔ حتی کہ جن کا کوئی میزبان نہیں ہوتا تھا، ان کی میزبانی بھی مرحوم فرمایا کرتے تھے۔ مسجد میں جتنے سفیر یا مسافر حضرات آتے، ان کا کھانا عموما انہیں کے گھر سے آیا کرتا تھا۔ مسجد سے ہٹ کر ان کی بیٹھک میں بھی عموما کوئی نہ کوئی مہمان آتے جاتے ہی رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں آنے والے علماء حضرات میں سے شاید کوئی ہی ہوگا، جنہیں باباجی علی احمد صاحب کا تعارف نہ ہو۔
4۔ بزرگوں کی ایک خوبی یہ بھی تھی مجبور، نادار اور ضرورتمندوں کے ساتھ خصوصی ہمدردی رکھتے تھے۔ مرتے دم تک لوگ اس سلسلے میں ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ عید کے موقعہ پر جب فطرانہ اکٹھا ہوتا تھا، تو مستحقین کے لیے مشاورت میں بھی آپ نمایاں ہوتے تھے۔ آپ ایک عرصہ تک زکاۃ کمیٹی کے ذمہ دار بھی رہے، شاید اسی مناسبت سے آپ کو ’ناظم‘ بھی کہا جاتا تھا۔
5۔ مساجد کی تعمیر اور خدمت میں بھی پھرپور دلچسپی رکھتے تھے۔ جہاں کہیں محسوس ہوتا کہ کوئی ذرا بھی دلچسپی رکھنے والا جماعتی موجود ہے، اور وہاں مسجد کی ضرورت ہے، تو بھرپور کوشش کرتے کہ کسی نہ کسی طرح وہاں اللہ تعالی کا گھر مسجد تعمیر ہو کر، آباد ہوجائے۔ وفات کے بعد بعض لوگ آئے ہوئے تھے کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کسی جگہ پر مسجد کے لیے سیمنٹ وغیرہ کی ضرورت تھی، انہوں نے آکر مرحوم بزرگ سے کہا، تو فورا ان کے ساتھ چلے گئے، اور جہاں کہیں سے ممکن ہوا، انہیں بندوبست کرکے دیا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی مساجد کی تعمیر اور آبادی میں بزرگوں کی محنت شامل تھی۔
6۔ بابا جی مرحوم کو ج۔ہاد اور م۔جاہ۔دین سے بڑی محبت تھی۔ چونکہ بزرگ تھے، سب باریکیوں سے واقف تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے انہیں ہمیشہ
جہ۔اد سے محبت اور محنت کرنے والوں میں پایا۔ ادھر ادھر کے جتنے مسؤلین تھے، وہ بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوجاتے، اور آپ سب کام چھوڑ چھاڑ کر، چندہ اور بندہ، دونوں اکٹھا کرنے میں بھرپور تعاون فرماتے۔
اس سے بڑی قربانی کیا ہوسکتی ہے، اپنے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹا، اللہ کے رستے میں بھیجا۔ اور اس کی ’شہــادت پر جزع و فزع کی بجائے، صبر واستقامت سے اللہ رب العالمین کا شکریہ ادا کیا۔ آج وہ بیٹا موجود ہوتا، تو یقینا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنتا، ان کے جنازے کو کندہ دیتا، خود پکڑ کر قبر میں اتارتا۔ لیکن امید ہے اس نے دنیا میں الوداع کے بدلے میں، ان کا جنتوں میں ضرور استقبال کیا ہوگا۔
7۔ بزرگوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ دنیا اور اس کی رنگینوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کا مقصد دین اور آخرت تھا۔ ستر پچھتر سال کی بھرپور زندگی گزاری.. لیکن دنیاوی نعمتوں میں صرف اتنی ہی دلچسپی رکھی، جس سے ’قوتِ لایموت‘ کا بندوبست ہوسکے۔
حتی کہ بیٹیوں کے رشتے کرتے ہوئے بھی، اولین ترجیح دین اور عقیدہ کی صحت و سلامتی ہی رہی۔ مرحوم کے چھے داماد ہیں، اور سب میں یہ چیز مشترک نظر آتی ہے۔ بلکہ ہم سب سے بھی ان کی یہی توقع ہے کہ آگے ہماری اولادیں بھی دینی تعلیم پر توجہ دیں۔ اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرمائے۔
8۔ مرحوم کی دینی معلومات کا ذریعہ بزرگوں اور علماء سے براہ راستہ اخذ و استفادہ ہی تھا، یا پھر ذاتی مطالعہ کے کافی شوقین تھے۔ کسی مدرسے کے تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ البتہ جس حد تک ممکن ہوتا، ارد گرد بچوں اور نوجوانوں کو مدرسے میں داخلے کی ترغیب ضرور دلاتے تھے۔ بلکہ کئی ایک بچوں کو خود لے جا کر مختلف مدارس میں داخل کروا کر آئے۔ آخری سالوں میں گاؤں کی ایک مسجد میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے قابل قدر کوشش ہوئیں، جن میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اللہ تعالی اس کار خیر کو جاری و ساری رکھے۔
9۔ بزرگوارم کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ علاقے کی تمام قدیم و جدید دعوتی اور جماعتی سرگرمیوں سے واقف تھے۔ بلکہ اس حوالے سے انہیں ایک انسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے۔ خاندان کے انساب کے حافظ اور ماہر تھے۔
ان کی پیدائش اگرچہ قیامِ پاکستان کے بعد کی تھی، لیکن اس سے پہلے کے حالات بھی اسی طرح ازبر تھے، جیسا کہ انسان نے خود مشاہدہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے بہت نیک اور صالح بزرگ بابا جی فضل الحق صاحب ہیں، اللہ تعالی ان کو صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ وہ خود پرانے بزرگوں میں سے ہیں، لیکن تاریخ اور انساب کے حوالے سے وہ بابا جی علی احمد صاحب کی طرف ہی رہنمائی کیا کرتے ہیں۔ اگر کوئی ذمہ دار نوجوان ان کے پاس دو چار ماہ بیٹھ جاتا، تو وہ ہمارے علاقے کی تاریخ اور اس کےمالہ وماعلیہ پر ایک ضخیم کتاب مرتب کرسکتا تھا۔ جس کی مجھے خواہش بھی تھی، اور میں نے کئی بار ان سے اظہار بھی کیا، اور وہ خود بھی تیار تھے، لیکن میری کوتاہی ہے کہ میں ہی وقت نہ نکال پایا۔ جنوری 2019ء میں ان کے ساتھ دو تین دن گزارنے کا موقعہ ملا، تو کچھ خاکہ سا مرتب کیا تھا، لیکن اس کے بعد دوبارہ پھر اس میں معلومات لکھنے کا موقعہ نہیں مل سکا۔ قدر اللہ وما شاء فعل۔
10۔ بابا جی کو اللہ تعالی نے حلم اور صبر کی نعمت سے بھی مالا مال کیا ہوا تھا۔ دعوت و تبلیغ اور جماعتی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے، کئی دفعہ اونچ نیچ ہوئی، لیکن ہم نے ہمیشہ دیکھا کہ آپ نے کبھی ترکی بہ ترکی جواب دینے، یا مقابلہ بازی کی کوشش نہیں کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: أنا زعیم ببیت فی ربض الجنۃ لمن ترک المراء وإن کان محقا. ہمارا حسن ظن ہے کہ مرحوم بزرگ اس حدیث مبارک کے مصداق تھے، اور یقینا اللہ تعالی انہیں یہ عظیم صلہ عطا فرمائے گا۔ ان شاءاللہ

بزرگوں کا سفرِ آخرت:

بابا جی کو، کوئی خاص بیماری نہیں تھی، البتہ وقت گزرنے کے ساتھ قوی مضمحل ہونا، ایک فطری بات تھی، وہ کمزوری ایک عرصے سے آپ میں دیکھنے میں آرہی تھی۔ کئی ماہ سے معدہ مسلسل خراب تھا، اور جسمانی کمزوری میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ 12 ستمبر بروز سوموار کو عصر کی نماز پڑھنے مسجد میں گئے، وہیں پر سانس میں کچھ دشواری محسوس ہوئی۔ لیکن بہر صورت نماز پڑھ کر گھر آگئے۔ پھر مغرب کے لیے باہر نکلے، تو مولانا عبد الرحمن (کپڑے والے) کےکہنے پر واپس آگئے کہ کمزوری زیادہ ہوگئی ہے، لہذا نماز گھر ہی پڑھ لیا کریں۔ لہذا مغرب عشاء، تہجد اور صبح کی نماز گھر ہی ادا کی۔ رات ساری سانس کی تکلیف اور دشواری میں مبتلا رہے۔ صبج ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اپنی اہلیہ کے ہمراہ، گاؤں کے ایک نوجوان کی گاڑی میں بیٹھ کر رائیونڈ ہسپتال چلے گئے، جہاں آپ کا بیٹا طارق پہلے ہی موجود تھا۔ گاڑی میں خود سوار ہوئے، وہاں خود چل کر ہسپتال کے بیڈ تک گئے۔ لیکن چند ہی لمحات میں طبیعت زیادہ بگڑ گئی، ڈاکٹر حضرات سارے جمع ہوگئے، اور چند منٹوں میں بزرگ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔
ڈاکٹر حضرات نے بیٹے کو بتایا تھا کہ ان بزرگوں کو کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے علاج کی ضرورت ہو۔ البتہ لگتا ہے کہ ان کا وقت پورا ہوچکا ہے۔
بہرصورت ہم سمجھتے ہیں یہ بھی ان کی نیکی اور حسن خاتمہ کی علامت ہے کہ ایک طرح سے تندرستی کی حالت میں ہی بغیر کسی اضافی تکلیف میں مبتلا ہوئے، چلتے پھرتے ہی چلے گئے۔ فجر کی نماز پڑھی اور ظہر سے پہلے پہلے اللہ تعالی کا بلاوا آگیا۔ گویا اللہ تعالی اپنے بندے کی لاج رکھتا ہے کہ جس نے تندرستی کی حالت میں نماز میں کوتاہی نہیں کی، اللہ تعالی اسے مرض الموت میں بھی اس سے محفوظ ہی رکھا۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو جنت کی کیاری بنائے، اور اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔

نمازِ جنازہ:

آپ صبح تقریبا ساڑھے دس بجے کے قریب فوت ہوئے۔ اور جنازے کا ٹائم عشاء کے بعد 9 بجے طے پایا۔ تاکہ دور نزدیک والے تمام مہمان آجائیں۔
بالخصوص آپ کے داماد حافظ اشفاق صاحب اور حکیم سعید اختر صاحب کو پہنچنے میں ذرا وقت لگا۔ اور وہ تقریبا عشاء کے وقت آٹھ ساڑھے آٹھ بجے پہنچے۔
غسل کے فرائض ہماری برادری کے ایک بزرگ محترم مشتاق صاحب اور راقم الحروف نے سرانجام دیے۔ جبکہ جنازے کے بہترین انتظامات آپ کے داماد حافظ اشفاق صاحب کی دلچسپی سے جما۔عۃ الد۔عوۃ کے احباب نے کیے۔ اور جنازہ بھی جماعت کے مرکزی رہنما محترم جناب سیف اللہ خالد صاحب نے پڑھایا۔ جبکہ گاؤں کی جماعت کے موجودہ امیر سید حبیب الرحمن کاظمی حفظہ اللہ نے سب مہمانوں کا حسبِ حال استقبال کیا اور انتظامات کا جائزہ لیا۔
عشاء کے بعد وقت زیادہ ہونے کے باوجود جنازے اور تدفین میں ایک جم غفیر نے شرکت کی۔ جن میں ایک کثیر تعداد مقامی اور علماء اور طلبہ علم کی تھی۔ جامعہ امام بخاری بھوئے آصل کے مدیر قاری ادریس ثاقب صاحب، اسی طرح جماعت کے مشہور شاعر اور نعت خواں قاری تاجدین شاکر صاحب جیسے بزرگوں نے بھی جنازہ میں شرکت کی۔ بلاشبہ ہزاروں کا مجمع تھا۔ بعض احباب کے بقول گاؤں بھمبھہ کلاں (تحصيل كوٹرادھاکشن، ضلع قصور) میں اس سے پہلے اس نوعیت کا جنازہ صرف ہماری جماعت کے روح رواں سید سعید احمد شاہ صاحب رحمہ اللہ کا ہی تھا جو 2000ء میں فوت ہوئے تھے، اور ان کا جنازہ حافظ یحیی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ نے پڑھایا تھا۔
اللہ تعالی تمام فوت شدگان بزرگون پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، اور ہمیں ان کے عظیم مشن کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حرفِ اخیر: جس وقت یہ تحریر سوشل میڈیا پر نشر ہورہی ہے، اس وقت چاروں طرف جماعتوں، قیادتوں اور کریڈٹس کی ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ دور دراز دیہاتوں، شہروں اور علاقوں میں اخلاص کے ساتھ کام کرنے والوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کام کرنے کے لحاظ سے ایک انجمن ہوتے ہیں، اگرچہ انہیں کوئی جانتا تک بھی نہیں ہوتا، اور انہیں أُن عہدوں اور مناصب کی پرواہ بھی نہیں ہوتی… جس پر اشرافیہ جنگ و جدال تک پہنچ جاتی ہے۔ شاید یہی وہ عظیم لوگ ہیں، جو دنیا میں غریب اور اجنبی سمجھے جاتے ہیں، لیکن ان کی عظمتوں کے تذکرے آسمانوں میں ملأ اعلی میں ہورہے ہوتے ہیں۔ اللہم اجعلنا من ھؤلاء الأبرار المقبولین عندک.

تحریر: ابو حمدان حافظ خضر حیات

حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ