شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ(فاضل جامعہ سلفیہ فیصل آباد ومحمدیہ)کا مختصر تعارف

جَمَالُ ذِي الأَرضِ كانُوا فِي الحَيَاةِ وَهُم ..
بَعدَ المَماتِ جَمَالُ الكُتبِ وَالسِّيَرِ
وہ زندگی میں اہل زمین کی زینت تھے اور وفات کے بعد سیرت و سوانح کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں”

نام و نسب
عبدالسلام بن حافظ محمد ابو القاسم بن حسین بن اسماعیل بھٹوی
پیدائش
ان کی پیدائش27 اگست 1946ء کو اپنے ننھیال موضع گوہڑ چک نمبر 8 پتوکی ضلع قصور میں ہوئی۔ان دنوں حافظ صاحب کے
والد محترم حافظ محمد بھٹوی رحمہ اللہ میر محمد ضلع قصور میں مدرس تھے۔
ان کا آبائی گاؤں ’’بھٹہ محبت والا ’’ ہے، جو تحصیل دیپال پور ضلع اوکاڑہ پنجاب میں واقع ہے، اس کی نسبت سے موصوف کو ’’بھٹوی’’ کہا جاتا ہے۔
تعلیم
گھر میں ہی علم کا سمندر موجود تھا۔ ابتدائی تعلیم والد محترم سے گھر میں ہی حاصل کی حافظ عبدالسلام صاحب نے پرائمری تک “بھٹہ محبت” میں پڑھا، پھر گورنمنٹ ہائی سکول چک ۴ جی ڈی غلام رسول والا ضلع اوکاڑہ میں داخل ہوگئے ۔ مڈل تک وہاں تعلیم حاصل کی ۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی ذہن اور حافظہ بلا کا عطا فر مایا تھا۔
درس نظامی
حافظ صاحب جب سکول کی چھٹی ساتویں کلاس میں تھے تو ایک دن عشاء کے بعد والد صاحب فرمانے لگے پڑھو صرف صغیر فعل ثلاثی مجرد صیح از باب فَعَلَ يَفْعِلُ الضَّرْبُ زَدَنْ مارنا میں ساتھ ساتھ پڑھتے گیے۔ دوچار دفعہ کہلوا کر اگلے الفاظ کہلوا دیئے ۔ غرض صرف صغیر زبانی یاد کرادی ۔ اگلے دن آگے
سبق دے دیا۔ یہ تھا آپ کا باقاعدہ درس نظامی میں داخلہ۔
اس طرح انہوں نے پوری ابواب الصرف کتاب ہی یاد کرلی ۔ پھر والد گرامی نے ان کو صرف
میر، نحو میر پڑھائی، اس کے بعد شرح مائۃ عامل پڑھائی ۔ یہ کتابیں پڑھانے کا بھی والد محترم کا خاص طریقہ تھا،
تو ان کتابوں کے بعد والد صاحب ترجمۃ القرآن اور بلوغ المرام پڑھانے لگے۔ مڈل
پاس کرنے تک اتنا نصاب درس نظامی مکمل کرچکا تھے۔
دارالحدیث اوکاڑہ میں داخلہ
حافظ عبد السلام کے والد 1960ء کو مدرسہ ڈھلیانہ سے چھوڑ کر “دار الحدیث اوکاڑہ” تشریف لے آئے ۔ تو رہائش بھی ساتھ ہی اوکاڑہ میں آگئی۔ اب حافظ صاحب کو سکول کی بجائے دار الحدیث اوکاڑہ میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں ایک سال میں آپ نے نصاب کے مطابق تیسری اور چوتھی کلاس کی اکثر کتابیں پڑھ لیں۔ آپ سبعہ معلقہ الفیہ کے اشعار زبانی یاد کرکے سناتے جبکہ دروس البلاغہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ والد صاحب سے پڑھتے ۔ ان کے علاوہ یہ کتب پڑھیں ۔ مشکوۃ مکمل، ترجمۃ القرآن، قدوری،
فصول اکبری، جلالین ، مرقاة،شرح تہذیب ، مقامات حریری۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد

1961 کو حافظ عبدالسلام اپنے والد کے ساتھ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں آگئے اور ان کے لیے والد صاحب نے پانچویں اور چھٹی جماعت کی کچھ کتابیں منتخب کیں ۔ جن میں مختصر معانی، متنبی، تفسیر بیضاوی ، شمس بازغہ، تصریح مولاناشریف اللہ رحمہ اللہ سے، دلائل الاعجاز اور تاریخ الأدب العربی مولانا صادق خلیل رحمہ اللہ سے اور حجۃ اللہ حافظ عبد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ سے پڑھیں اسی سال شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ( مدفون مدینہ منورہ)
نےحافظ عبدالسلام کے ساتھ بخاری شریف دوبارہ پڑھی۔گویا علامہ صاحب، حافظ عبدالسلام کے کلاس فیلو تھے۔ حافظ عبد السلام کہتے ہیں کہ والد صاحب کی برکت
اور اللہ کے فضل سے ممدوح نے تین سال میں آٹھ سالہ درس نظامی کا کورس مکمل کر لیا۔ والحمد لله على ذلك۔
جامعہ اشرفیہ لاہور
جامعہ سلفیہ سے فارغ ہوکر فنون کی کچھ کتابیں پڑھنے کے لیے دیوبندیوں کے معروف مدرسہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں داخل ہو گئے ۔ کھانے اور رہائش کا انتظام مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے ہاں ہی رکھا مگر تعلیم کا یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ جس کی بڑی وجہ وہاں کے اساتذہ کرام کا بے جاشدید مسلکی تعصب تھا حتی کہ وہاں کے ایک استاد منطق کی کتاب “سلم العلوم”پڑھاتے ہوئے قادیانیوں اور غیر مقلدوں کو ایک ہی درجے
میں رکھ کر ان کی تردید کرتے تھے۔ کچھ دن برداشت کیا پھر وہاں پڑھنا چھوڑ دیا۔
جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں دوبارہ بخاری شریف
جامعہ اشرفیہ سے چھوڑ کر جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں آکر داخل ہوگئے۔اور وہاں توضیح تلویح، شرح عقائد نسفی ، سائرہ حمد اللہ وغیرہ کے ساتھ شیخ الحدیث مولانا عبدہ الفلاح رحمہ اللہ سے دوبارہ بخاری شریف پڑھی۔ اور ساتھ فاضل عربی اور میٹرک کا
امتحان انگلش کے ساتھ دیا۔ جبکہ فارسی فاضل کا امتحان جامعہ سلفیہ میں پڑھنے کے دوران دے چکے تھے۔
حفظ القرآن کی سعادت
جامعہ محمدیہ اوکاڑہ سے دوبارہ بخاری شریف پڑھ کر فارغ ہوئے تو والد صاحب سے پوچھا ، اب کیا حکم ہے؟ والد صاحب فرمانے لگے ، ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نے سکول میں پڑھانے کی پیش کش کی ہے اب ان کے پاس پڑھانا شروع کردیں۔ کہنے لگے ، اگر آپ اجازت دیں تو میری خواہش ہے قرآن پاک حفظ کرلوں ۔ والد صاحب نے بخوشی اجازت دے دی تو مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کے پاس لاہور آگئے ۔ اور مولانا کو مقصد آمد بتایا۔
حفظ کے لیے جامع مسجد چینیانوالی لاہور میں داخلہ لے لیا۔ عصر کے بعد چھٹی ہوتی
توپیدل چینیانوالی سے شیش محل روڈ جاتے ۔ مولانا عطاء اللہ صاحب کومل کر مغرب تک واپس مسجد میں پہنچ جاتے۔ لیکن حفظ کے استاد نے سختی سے روک دیا کہ عصر کے بعد بھی مدرسہ سے باہر نہیں جاسکتے۔ بایں وجہ چینیانوالی سے چھوڑ کر رنگ محل کوچہ کندیگراں مدرسہ تجوید القرآن میں معروف استاد قاری فضل کریم کے پاس چلے گئے ۔ جو کہ نابینا تھے۔ اور ان کے معاون استاد قاری مسافر جان تھے ان اساتذہ کے پاس ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور یہ بات قریبا 1965ء کی ہے۔
اساتذہ کرام
حافظ صاحب نے مندرجہ ذیل اساطین علم ، علماء ومحد ثین سے استفادہ کیا۔
(1) شيخ العرب و العجم علامہ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ۔
(2) شیخ الحدیث ابو عبدالسلام حافظ محمد بھٹوی رحمہ اللہ( والد محترم )
(3)شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح رحمہ اللہ۔
(4)شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ
(5)شیخ القراء المقری قاری محمد اسلم گوجرانوالہ۔
(6) استاد الاساتذہ مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ۔
(7) مولانا حافظ عبد الرزاق رحمہ اللہ(آف ڈھلیا نہ)
(8)استاد الادب مولانا محمد صادق خلیل رحمہ اللہ(آف فیصل آباد)
(9)مولانا محمد شریف اللہ خان سواتی رحمہ اللہ۔
(10) مولانا محمد سرور شاہ رحمہ اللہ(استاد جامعہ سلفیہ)
(11) مولا نا عبد الحق میواتی رحمہ اللہ(استاد دار الحدیث اوکاڑہ)
(12) مولانا محمد اسحاق خائف حصاروی رحمہ اللہ۔
(13)استاد الحفاظ قاری فضل کریم لاہور ( دیو بندی )
(14) الحافظ القاری مسافر جان لاہور ( دیو بندی)
جامعہ محمد یہ گوجرانوالہ میں تقرری
حفظ القرآن سے فارغ ہو کر گھر آئے ، رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ شیخ الحدیث
مولانا عطاء اللہ رحمہ اللہ کی طرف سے پیغام ملا کہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کو استاد کی ضرورت ہے، آپ وہاں چلے جائیں ۔ مولانا کا حکم پاکر حافظ عبد السلام صاحب 1966 ء کو جامعہ محمد یہ گوجرانوالہ پڑھانے کے لیے پہنچ گئے ۔ پھر سلفی صاحب کے بعد مولانا محمد عبداللہ صاحب مہتمم بنے تو ان کے پاس جامعہ محمدیہ چوک (نیائیں ) اہل حدیث اور پھر جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ میں پڑھاتے رہے۔ جب راولپنڈی کے معروف خطیب اور شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح رحمہ اللہ فوت ہوگئے تو وہاں کی جماعت نے مولانا عبداللہ صاحب سے خطیب و شیخ الحدیث کا مطالبہ کیا ۔ مولانا صاحب کی نظر انتخاب حافظ صاحب پر پڑی تو انہوں نے حافظ صاحب کو حکما وہاں بھیج دیا اور شفقت کی انتہا کہ جاتے وقت فرمانے لگے ، مولوی عبد السلام پریشان نہیں ہونا۔ یہ تمہارا اپنا مدرسہ ہے، اگر کوئی معاملہ ہو تو اپنے مدرسہ میں واپس آجانا۔ چنانچہ ایک سال راولپنڈی رہنے کے بعد دل نہیں لگا دوبارہ جامع محمد یہ گوجرانوالہ میں آکر پڑھانے لگے۔
کلاس فیلو علماء کرام

(1) مولانا بشیر احمد صاحب(اسلام آباد)
(2)مولانا حبیب الرحمان یزدانی شہید رحمہ اللہ (کامونگی)
(3)علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ (مدفون مدینه )
(4)شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
(5)مولانا عتیق اللہ صاحب الہ آباد ( ٹھینگ موڑ )
6) علامہ مولانا قاری محمد علی (ناشر الاسلام گوجرانوالہ)
(7)قاری ریاض الحق عمران صاحب (آف منڈی عثمانوالہ قصور)
خطابت
جامع مسجد بلال اہل حدیث سیٹلائٹ ٹاؤن کے متولی حاجی بشیر احمد جموں والے کے مطالبہ پر حضرت مولانا اسماعیل سلفیؒ نے 1966ء میں حافظ عبد السلام کو بطور خطیب وہاں بھیج دیا۔ سات سال وہاں خطابت کی پھر مولانا محمد عبد اللہ کے حکم پر جامع مسجد بلال گلی نمبر ۱۴ محله احمد پورہ گوجرانوالہ میں بطور خطیب تشریف لے گئے ۔ چند سال بعد حافظ صاحب راولپنڈی تشریف لے گئے ۔ ایک سال وہاں رہ کر واپس گوجرانوالہ آئے تو خطبہ جمعہ کے لیے جامع مسجد طیبہ اہل حدیث وحدت کالونی میں ڈیوٹی لگی۔ کئی سال بعد جب پیپلز کالونی آباد ہوئی اور وہاں کی مرکزی جامع مسجد الفتح اہل حدیث معرض وجود میں آئی تو وہاں کوئی خطیب فٹ نہیں ہورہا تھا چنانچہ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ رحمہ اللہ نے حافظ عبد السلام کو خطبہ کے لیے وہاں بھیج دیا ۔ چنانچہ 1988ء سے لے کر 2023 تک وہاں ہی خطیب رہے۔
جامعہ محمدیہ سے مرکز طیبہ مرید کے
تقریبا ستائیس سال جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھانے کے بعد 1992 کو مستقل طور پر مرکز طیبہ مرید کے آگئے۔ گویا جامعہ محمد یہ گوجرانوالہ میں آپ کی تدریس کا 27 سالہ دور ختم ہوا۔ مرید کے آتے ہی پہلے سال تدریب الدعاة والمعلمین کے نام سے مدارس کے فضلاء کی کلاس شروع کی اور اگلے سال “المعہد العالی للدعوة الاسلامیہ” کے نام سے باقاعدہ مدرسہ شروع کر دیا گیا جس کی ادارت آپ کو سونپ دی گئی۔ تب سے وفات تک پاکستان بھر میں مرکز الدعوة والارشاد اور ساتھ ساتھ “جماعۃ الدعوۃ” کے
تمام ادارے بمعہ شعبہ جات حفظ القرآن حافظ صاحب کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔
تلامذہ
یوں تو حافظ صاحب کے اس وقت شاگرد بے شمار ہیں ۔ تاہم چند خاص خاص کے نام
درج ذیل ہیں۔
(1) ڈاکٹر علامہ پروفیسر فضل الہی صاحب (سابق پروفیسر مدینہ یو نیورسٹی)
(2)ڈاکٹر مولانا عبد الحمید ازهر رحمہ اللہ( مبعوث سعودی عرب) اسلام آباد۔
(3)شیخ الحدیث حافظ محمد شریف حفظہ اللہ (مدیر مرکز التربیہ الاسلامیہ فیصل آباد)
(4)شیخ الحدیث مفتی عبدالرحمان عابد (مرکز طیبہ مرید کے)
(5) شیخ الحدیث مولانا حافظ خالد بن بشیر صاحب (جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)
(6)شیخ الحدیث مولانا بشیر احمد بھٹوی (گوجرانوالہ)
(7) شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ صاحب رفیق( مدرسہ محم یہ لوک ورکشاپ لاہور)
(8)شیخ الحدیث حافظ محمد امین حفظہ اللہ (اوڈاں والا ضلع فیصل آباد)
(9) شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی صاحب(جامعہ رحمانیہ لاہور)
(10) شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان ضیاء حفظہ اللہ(آف جھنگ )
(11) شیخ الحدیث مولانا محمد طیب صاحب(مرالی والا)
(12) استاد المجاہدین ذکی الرحمان لکھوی حفظہ اللہ۔
(13)پروفیسر خلیق الرحمان لکھوی رحمہ الله (آف رینالہ خورد)
(14) مولا نا سعید طیب بھٹوی صاحب(مدیر مرکز الحدیبیہ راولپنڈی)
(15) مولانا حافظ محمد عبد اللہ شرقپوری فاضل مدینہ یونیورسٹی و مبعوث سعودی عرب
(16) مولانا ڈاکٹر نذیر احمد حماد صاحب سرفراز کالونی گوجرانوالہ خطیب سمبڑیال
(17) ( قاری محمد طیب بھٹوی صاحب(سرفراز کالونی گوجرانوالہ)
(18) مولانا محمد طاہر طیب بھٹوی صاحب(گوجرانوالہ)
(19)فضیلتہ الشیخ محمد صدیق صاحب حفظہ اللہ (مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد)
(20)فضیلتہ الشیخ حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ (مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد)

تالیفات
تدریس و خطابت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے ۔ جامعہ محمد یہ گوجرانوالہ میں دوران تدریس آپ نے حنفیت کے موضوع پر چند ایک کتابیں لکھیں اور مرکز طیبہ مرید کے آکر یہ سلسلہ باقاعدہ
چلتا رہا تھا جن میں مندرجہ ذیل کتب لکھی ہیں۔
(1) اردو ترجمہ قرآن مجید۔
(2) پورے قرآن مجید کے ہر لفظ کے نیچے ایک خانہ میں اس کا اردو ترجمہ۔
(3) تفسیر القرآن الکریم اردو چار جلدیں۔
(4) اردو شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام۔
(5) ترجمہ اسلامی عقیدہ از جمیل زینو۔
(6) احکام زکوۃ و عشر و صدقہ الفطر۔
(7) مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا فتنہ۔
(8) مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج۔
(9) مسنون دعاؤں کی کتاب ’’حصن المسلم’’ کا اردو ترجمہ۔
(10) ہم جہاد کیوں کررہے ہیں؟
(11) ایک دین چار مذاہب۔
(12) اردو شرح کتاب الطہارۃ من بلوغ المرام۔
(13) وفات سے قبل صحیح بخاری(فتح السلام کےنام سے)کا اردو ترجمہ اور اس کی متوسط شرح لکھ رہے تھے، تین جلدیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جبکہ شرح بخاری کی تکمیل میں ابھی تقریبا سات سو احادیث باقی تھیں۔ لیکن زندگی نے وفا ناکی۔
وفات
علم وعرفان کا یہ آفتاب29 مئی 2023ء کو غروب ہوگیا،
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالٰی شیخ محترم کی جہود طیبہ کو اپنی بارگاہ الہی میں قبول کریں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

●ناشر :حافظ امجد ربانی
●متعلم :جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:مولانا ہارون مجید صاحب حفظہ اللہ