سوال (1480)

ان دنوں ہمارے ہاں ایک فیملی میں تین کیس ایسے ہو چکے ہیں کہ فلاں عورت/ کے گھر بچہ نہیں ہے، اس کے بھائی/بہن (جن کی اولاد – ذکور واناث – پہلے سے موجود ہے) کے نو مولود کو لے پالک (متبنی) بنا لیتے ہیں ، اگرچہ بچے کی ولدیت اصل باپ کی لکھوائی جاتی ہے ، اب یہ بچہ انہی کے ہاں زندگی گزارے گا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

کسی کی اولاد( بیٹے/ بیٹی) کو لے پالک کے طور پر لیا جا سکتا ہے ، اس کی نسبت (ابنیت، ولدیت) اس کے حقیقی والد کی طرف رہنی چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

شیخ کبیر حفظہ اللہ نے جواب دے دیا ہے ، بالکل بچہ گود لیا جا سکتا ہے ، اس بچے کی نسبت اس کے حقیقی والد کی طرف ہونی چاہیے ، اس لیے کہ قانونی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، سرپرست کا خانہ ایک مدت تک ہوتا ہے ، اس کے بعد لا محالہ کاغذات کے لیے کوئی نام دینا پڑتا ہے ، اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہیں آیا ہے ، باقی یہ ثابت ہے کہ بچے کی نسبت والد کے علاؤہ کسی اور کی طرف نہیں ہونی چاہیے ، لیکن قانونی طور پر کئی مسائل پیش آتے ہیں ، اس میں میں نے پہلے بھی رائے دی تھی کہ مجبوری کے احکامات الگ ہوتے ہیں ، اس لیے کاغذات کی حد تک اجازت دینی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ