مجھے یاد ہے بچپن میں جب کبھی ہمیں رات کو نیند نہیں آتی تو ہم اٹھ کر امی جان کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور انہیں نیند سے بیدار کر کے کہا کرتے تھے:
” امی مجھے نیند نہیں آرہی،،
امی جان فوراً نیند سے بیدار ہو کر پو چھتیں کیوں بیٹا کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتیں، پیٹ میں درد تو نہیں؟ اور تسلی کر لینے کے بعد اکثر اپنے پاس سلا لیا کرتیں یا جب تک ہم چاہتے ہمارے پاس بیٹھی رہتیں۔
مرور ایام کے ساتھ ساتھ پھر ہم بڑے ہو گئے اور رات کو بے سُدھ ہو کر بے فکری کی نیند سونے لگے اور امی جان  بوڑھی ہو گئیں انہیں۔ پھر یوں ہوا اکثر راتوں کو انہیں نیند نہیں آتی۔ اس بے چینی میں اول تو ماں اپنے بچے کے آرام میں مخل نہیں ہوتی،  مگر کبھی وہ یہ غلطی کر ہی دے تو عموماً بچے ماں کو اہنٹی ڈپریشن یا نیند کی گولی کھاکر سونے کی تلقین کرتے ہیں یا اگر وہ بیمار ہوں تو روٹین کی دوائیں وغیرہ لینے کی ہدایت کر دیتے ہیں۔

در اصل بچپن میں اور بڑھاپے میں کافی مماثلت ہے دونوں عمروں میں کسی انجانی بات پر دل مضطرب ہو جاتا ہے۔ مگر خوش نصیب بچوں کا یہ اضطراب انکی مائیں اپنے ہاتھوں کے لمس سے ہی دور کر دیتی ہیں۔ اکثر کسی بات پر روتے ہوئے بچے کا سر جب ماں اپنی گود میں رکھ کر ہاتھوں کی انگلیوں سے سہلایا کرتی ہے تو یک دم بچہ سکون پا جاتا ہے۔

شاید ہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمیشہ بے چینی کا علاج گولیاں, دوائیں نہیں ہوتیں کبھی کبھی ماؤں کو بھی ہمارے ہاتھوں کے لمس درکار ہوتے ہیں۔ ایک بوڑھے کو بھی مشکل میں بچے کی طرح اپنائیت اور ہمنوائی کی طلب ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ان کے ناتواں جسم ہمارے مضبوط ہاتھوں سے آرام کے متلاشی ہوتے ہیں۔
سوچیے ہم میں سے کتنے ایسے بچے ہیں جو راتوں کو اٹھ کر اپنے والدین کو دیکھتے ہیں کہ آیا وہ پر سکون نیند سو رہے یا بڑھاپے کی ویران راتوں میں اپنے بچپن کو اپنی ماں کے ہاتھوں کے لمس کو یاد کر رہے ہوں۔ منقول

رب ارحھما کما ربیانی صغیرا