بلا حساب جنت میں جانے والے

اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے امت محمدیہ میں سے ایک طبقے کو بلا حساب جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور یہ وعدہ رب سبحانه وتعالی نے اپنے حبیب ﷺ سے کر لیا ہے اور آپ ﷺ ہی کی زبانی اس کی خبر بھی ہمیں دے دی ہے۔
چنانچہ اس کی کیفیت، تعداد، اور حالات کے بارے میں جو احادیث صحیح سند کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ان کے مطابق چند باتیں بیان کی جاتی ہیں:
– ان کی تعداد ستر ہزار ہوگی۔ (بخاری:5705)
– پھر ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار مزید لوگ بھی بغیر حساب کے جنت میں بھیجیں گے۔(مسند احمد: 22156، 22303)
– ساتھ ہی اللہ تعالی اپنے ہاتھ مبارک سے
تین حثیات (یعنی دونوں ہاتھوں کو ملا کر انہیں بھرنا) مزید بھی نکالیں گے۔(مسند احمد: 22303، 22156)
– ان کے چہرے مکمل چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔(مسند احمد: 10538)
– ان میں صحابی رسول حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ بھی شامل ہوں گے۔(بخاری: 5705، مسند احمد:3806)
مگر قیامت کے دن اس “بے فکری” اور “امن” میں ہونے کی وجہ کیا ہوگی؟؟
وجہ اللہ کے نبی ﷺ نے ساتھ ہی بتا دی کہ ‘لا یکتوون’، ‘لا یسترقون’، ‘لا یتطیرون’ ‘وعلی ربہم یتوکلون’۔
– لا یکتوون: وہ داغ نہیں دلواتے ہوں گے۔
داغ دلوانا ایک طریقہ علاج ہے جس میں بہتے خون، ورم، سوزش یا اس طرح کے اور دوسرے مسائل کو آگ/تپش کے ذریعے ٹھیک کیا جاتا ہے۔ اس کی دراصل ایک سے زائد صورتیں ہیں۔
1 کہ اس مرض کا یہی ایک علاج ہو(جائز صورت)
2 بغیر مرض کے یہ کروایا جائے(کسی توہم کی بنیاد پر کہ ایسا کرنے سے مرض دور رہتا ہے وغیرہ تو یہ حرام صورت ہے)
3 مرض کی موجودگی میں یہ بات یقین کے ساتھ نا کہی جا سکے کہ اس کا علاج داغ دلوانا ہی ہے۔(یہ صورت مکروہ ہے اور یہی صورت ان احادیث میں مراد ہے کہ بندے کی توحید اس قدر پختہ ہو کہ وہ اسے یہ کام کرنے سے روک دے۔)
– لا یسترقون: دم کروانا
دم کرنا کروانا ایک جائز کام ہے بشرط یہ کہ قرآنی آیات اور حدیث سے ثابت ادعیہ سے کیا جائے۔ دم کرنے اور کروانے کی چند ممکنہ صورتیں یہ ہیں کہ:
1 دم خود اپنے اوپر کیا جائے
2 دم کسی دوسرے پر کروایا جائے
3 دم کسی دوسرے پر کیا جائے
4 دم اپنے اوپر کروایا جائے
یہ سب صورتیں ہی جائز صورتیں ہیں مگر ان میں آخر الذکر یعنی استرقاء(کسی سے اپنے اوپر دم کروانا)میں توحید میں نقص آنے کا خدشہ ہے ،اور یہی صورت احادیث میں مراد لی گئی ہے، کہ بندہ دم کرنے والے کے اندر کوئی اختیارات سمجھنے لگے۔
3 لا یتطیرون: بد فالی نہیں لیتے ہوں گے۔
مشرکین جاہلیت میں کسی کام کو کرنے یا نا کرنے کے لیے پرندوں سے فال نکالتے تھے۔ مثلا ایک بیٹھے ہوئے پرندے کو جا کر اڑاتے۔ اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو کام کر گزرتے اور اگر بائیں جانب تو اس کام سے باز رہتے۔ چنانچہ تطییر(کہ بندہ کسی نا پسندیدہ چیز کو دیکھنے سے اپنے ارادے بدلے یا پسندیدہ چیز کو دیکھنے سے اس کام میں اپنے لیے بھلائی تصور کرے) اللہ کے اختیار اور اس کے بندے کے لیے سب سے بہتر کے انتخاب سے تضاد رکھتی ہے، اور توحید میں نقص کا موجب بنتی ہے۔ اسی لیے جنت میں بلا حساب جانے والوں کی شرائط میں اس سے دامن کا پاک ہونا شامل ہے۔
4 وعلی ربہم یتوکلون: اور اپنے رب پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔
توکل ایک دلی عبادت ہے۔ یعنی اس کا دل میں موجود ہونا، بندے کے لیے مسلسل باعث اجر ہے۔ اس میں دنیاوی سہاروں سے بے رغبتی، اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے کے ساتھ ساتھ دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا بھی داخل ہے۔ مگر ان اسباب کو اپنانے کے باوجود بندے کو دل میں یہی بات راسخ رکھنی ہے کہ میرا کام کرنے والا اللہ تعالٰی ہی ہے نا کہ یہ سبب خود!!!
یہی توکل کی صحیح صورت ہے۔
اس پوری بات کا جائزہ لینے بعد جس چیز کی اہمیت کا ادراک ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ توحید ہے۔ کہ بندہ بتوں کی پوجا، غیر اللہ کو سجدہ اور دیگر واضح اقسام کے شرک کو تو چھوڑے ہی چھوڑے، ساتھ ان باریک اور دقیق امور میں بھی اپنی توحید کا خیال رکھے۔ تبھی اس کی توحید مکمل ہوگی اور وہ بلا حساب جنت میں جانے کا حقدار بنے گا۔

حافظ نصر اللہ جاويد

یہ بھی پڑھیں: ’ایک شاندار اہل حدیث عالم’ تحریر کے حوالے سے وضاحت