سوال (3670)

شیخ حدیث میں جو بیان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی عذر کے زندگی میں دو نمازوں کو اکٹھا کیا ہے، تو اس کا کیا مستند جواب ہو سکتا ہے اور کیا کسی عامی کے لیے بھی بغیر کسی عذر کے زندگی میں ایک بار ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

کبھی کبھار نمازوں کو جمع کرنے کی گنجائش ہے، اسے اکثر معمول بنانا غیر مستحسن ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بغیر کسی عذر کے جمع کرنا، امت پر مشقت کو رفع کرنے کے لیے تھا، نہ کہ اسے عام معمول بنانے کے لیے”۔ [مجموع الفتاویٰ: ج24، ص19]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
یہ جمع صوری ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ نے ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو شروع وقت میں پڑھا، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا، اس سے ایسا محسوس ہوا جیسے دونوں کو جمع کر لیا گیا ہو۔
یہ رخصت امت پر آسانی کے لیے دی گئی ہے یعنی کبھی کبھار بغیر عذر کے بھی ایسا کرنا جائز ہے تاکہ امت کو مشقت نہ ہو۔ [المنہاج شرح صحیح مسلم، نووی، ج5، ص213]

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

جمع صوری کی بات بعض علماء نے کی ہے، لیکن ہمارے جو جمہور سلفی علماء کا موقف ہے، وہ جمع صوری کا نہیں، جمع صوری میں نماز اپنے اپنے اوقات میں ہی پڑھنی ہے تو اس میں رفع حرج کی بات نہیں ہے، اور یسر بھی نہیں ہے، رفع حرج تب ہوگا جب نماز کو اپنے وقت پر نہیں پڑھا جائے، بلکہ سہولت کی غرض سے دوسری نماز کے وقت میں پڑھی جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بارک اللہ فیک
شیخ محترم جمع صوری میں یہ یسر ہے کہ ایک نماز کو مؤخر کیا جاتا، جس طرح ظہر کو آخری وقت مؤخر کیا جاتا ہے، ظہر پڑھ کر جیسے ہی بندہ فارغ ہوتا ہے تو عصر کا ٹائیم ہوجاتا ہے، اس وقت عصر کو پہلے وقت میں پڑھتا ہے، یہ یسر ہے، کیونکہ عام روٹین میں نماز مقررہ وقت پر باجماعت ہیں، لیکن کبھی کبھار امام نووی وغیرہ نے اس کو جمع صوری پر محمول کیا ہے، باقی جمہور سلفی علماء اس کو جمع حقیقی کبھی کبھار پر محمول کرتے ہیں، یہ رائے موجود ہے، اس موقف کا بھی احترام ہے، جس بھی موقف میں شرح صدر ہو اس کو لیا جائے، لیکن اس میں بھی یسر ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ