سوال (913)

کیا اس طرح کی قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ” میں آئندہ کبھی گناہ نہیں کروں گا” کیونکہ “کل بنی آدم خطاؤن” کے تحت تو بلآخر یہ قسم کہیں نہ کہیں ٹوٹ ہی جائے گی؟

جواب

المغنی میں ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے۔
(1) : یہ مندوب ہے یہ قول ہمارے اصحاب(حنابلہ) اور شافعیوں کا ہے۔
(2) : یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا نہیں کیا ہے ۔ اور نبی علیہ السلام نے اس کی ترغیب نہیں دلائی
مسلمان کے لئے بہتر ہے کہ وہ ایسی قسم نہ اٹھائے اور گناہوں سے بچنے اور اطاعت بجا لانے کی پوری کوشش کرے۔
رہا معاملہ اگر وہ قسم اٹھا لے تو کفارہ ادا کرے گا۔
[المغنی ابن قدامہ،البنایہ شرح الھدایہ وغیرہ]
نیز ابن باز رحمہ اللہ کا فتاوی اور ابن العثیمین کا سلسلہ نور علی الدرب ملاحظہ فرمائیں
واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سوال: میں  ایک گناہ کرتا تھا اس گناہ سے بچنے کے لیے میں نے قسم اٹھائی کہ نہیں کرونگا یہ گناہ ۔لیکن شیطان پھر مجھے اس گناہ کی طرف لے جاتا تھا۔ میں قسم توڑ کر  کفارہ ادا کرتا تھا لیکن مجھے سکون نہیں ہوتا تھا۔ قسم  کفارہ قسم کفارہ تو  پھر میں نے اپنے آپ کو زور دینے کے لیے ایسا قسم  اٹھایا کہ یہ گناہ نہیں کرونگا اور یہ قسم میرا ہمشہ کے لیے ہے۔

مطلب یہ کہ اگر قسم توڑا اور پھر کفارہ بھی ادا کیا تو دوسری بار یہ قسم خود بخود مجھ پر لگے گا اگر میں نے پھر سے قسم اٹھایا ہو یا نہ ہو قسم مجھ پر واپس لگے گا خودبخود؟اگر  چہ میں نے پھر سے قسم کا ارادہ اور الفاظ نہیں بولا بس شروع میں کہا تھا کہ یہ قسم ہمشہ کے لیے ہے۔

تو اب ایک دفعہ قسم توڑا کفارہ بھی ادا کردیا  تو کیا یہ قسم ختم ہوا  یا نہیں؟ دوسری بار کفارہ واجب ہونے کے لیے قسم پھر سے اٹھانا شرط ہے یا خود بخود لاگو ہوگا اب؟

جواب: یہ فقط لفظوں کی بحث ہے ، اگر قسم اٹھاتے ہوئے ہمیشہ کا لفظ کہہ بھی دیا اور قسم توڑدی کفارہ دے دیا تو نئی قسم خودبخود لاگو نہیں ہوگی جب تک کہ الگ سے پھر قسم نہ اٹھائے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

پیارے بھائی ویسے تو ایک ہی کام پہ ایک سے زائد بار قسم بھی اٹھائی ہو تو کفارہ ایک ہی ہو گا لیکن میرے علم کے مطابق یہاں معاملہ کچھ اور ہے اسکے لئے پہلے یہ جان لیں کہ قسم کی اقسام کتنی ہوتی ہیں۔

دیکھیں کفارہ کے لحاظ سے دیکھنے کے لئے پہلے ہم قسم کو نیت کے لحاظ سے تقسیم کرتے ہیں جیسا کہ اللہ ساتویں پارے میں کہا۔

لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الأيمان،  یعنی جو تم بغیر ارادہ و نیت کے قسم اٹھاتے ہو انکا مواخذہ نہیں ہو گا لین جو نیت کے ساتھ اٹھاتے ہو اسکا مواخذہ ہو گا پس پہلے بغیر نیت والی کفارہ سے نکل گئیں۔

اب نیت والی قسموں کو زمانہ کے لحاظ سے دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ پہلی ماضی یا حال کے کسی واقعہ کی حقیقت پہ نیت سے قسم اٹھانا کہ یہ ایسے ہے یا ایسے ہوا ہے۔

اسکیو دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

1.1۔ پہلی سچی قسم جس میں کفارہ کا تعلق ہی نہیں۔

1.2۔ دوسری جھوٹی قسم ۔جس میں جھوٹ دو قسم کا ہو سکتا ہے۔

پہلا جانتے بوجھتے جھوٹی قسم اتھانا اسکو یمین غموس کہتے ہین یہ حرام ہوتی ہے اور حرام کام منع ہوتا ہے اسکو توڑنے کا کفارہ نہیں ہوتا بلکہ گناہ ہوتا ہے۔

دوسری غلط فہمی میں ماضی کے واقعہ پہ جھوٹی قسم اٹھانا یہ لغو ہوتی ہے اس پہ گناہ نہیں ہوتا نہ کفارہ ہوتا ہے۔

2۔ دوسری مستقبل کے کسی کام کے کرنے یا ہونے کے بارے قسم اٹھانا کہ یہ ایسے ہو گا۔

اسکی پھر دو اقسام ہو سکتی ہیں

2.1۔ قسم اٹھانے والے بندے کے پاس اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار موجود نہ ہو

یہ اصل میں قسم نہیں ہوتی ہے بلکہ تاکید، یقین وغیرہ کی قبیل سے ہوتی ہے اسی کی مثال میں رب اشعث مدفوع بالابواب لو اقسم على الله لابره والی حدیث ہو سکتی ہے اسی طرح کوئی کہتا ہے کہ اللہ کی قسم لسطینی جیت جائیں گے پس چونکہ یہ اختیار میں نہیں ہوتی ہیں پس کفارہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ کفارہ کا مطلب گناہوں کو کم کرنا ہے اور گناہ اختیاری چیز پہ ہوتا ہے غیر اختیاری چیز پہ نہیں ہوتا ہے۔

2.2۔ قسم اٹھانے والے بندے کے پاس اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار موجود ہو۔

یہ اصل کفارہ والی قبیل سے ہوتی ہے یعنی کوئی انسان کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور پھر وہ قسم اٹھاتا ہے کہ میں یہ کروں گا یا نہ کروں گا اسکو مزید دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

2.2.1۔ پہلی وہ جس میں خیر ہو اور اس کے نہ کرنے کی بات کی گئی ہو یا جس میں برائی ہو اور اسکے کرنے کی بات کی گئی ہے ایسی قمس کو توڑنے کا حکم ہے اور اس کا کفارہ دینے کا حکم ہے جیسا کہ فرمایا:

لا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ،

یعنی اگر میں نے قسم اتھائی ہو اور دوسرے کام میں خیر دیکھوں تو قسم کا کفارہ دے کر دوسرا خیر والا کام کر لوں۔

2.2.2۔ دوسری وہ بات جو مباح ہو اس میں قسم اٹھانے سے وہ کام لازمی کرنا ہو گا ورنہ کفارہ دینا ہو گا۔

2.2.3۔ تیسری وہ کام کرنے کی قسم اٹھائی ہو جو فرض ہو یا وہ کام نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہو جو حرام ہو (جیسا کہ مذکورہ سوال ہے) اب میرے نزدیک یہ ہے کہ اگر بغور دیکھا جائے تو یہاں بھی انسان کو اختیار نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی شراب نہ پینے کی قسم اٹھاتا ہے تو اسکو شراب پینے کا شرعی لحاظ سے اختیار ہی نہیں کیونکہ وہ تو حرام کام ہے پس حرام کام کو چھوڑنا تو لازم ہے جیسا کہ اوپر یمین غموس میں کہا تھا کہ یمین غموس حرام ہے اور حرام سے نہ رکنا گناہ ہوتا ہے کفارہ تو نہیں ہوتا۔

پس میرے علم میں صحیح یہی ہے کہ حرام کام نہ کرنے کی قسم اٹھانے پہ کفارہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس میں ہمارے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔

یہاں 2.2.1  اور 2.2.3 میں فرق یہ ہے کہ پہلی میں ہم کفارہ دے کر جو دوسرا کام کریں گے وہ جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ دوسری میں ہم جب کفارہ دے کر دوسرا کام کرنا چاہئں گے تو وہ حرام ہے پس کفارہ کا یہاں مقصد ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں ویسے ہی اس سے رکنا چاہئے۔

اس میں اھل علم بہتر راہنمائی فرما سکتے ہیں میں ان شاللہ اپنی اصلاح کر لوں گے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ