سوال (1011)

ایک سرکاری ملازم ریٹائر ہو گیا ہے، لیکن اس کی پینشن کی مد میں پیسے بینک اکاؤنٹ میں موجود ہیں، جس کا منافع سود کی شکل میں ملتا ہے، جبکہ وہ لینا نہیں چاہتا اس صورت میں وہ کیا کرے گا؟

جواب

اس شخص کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنا اکاونٹ کرنٹ کروا لے، اس میں کوئی کٹوتی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی سود ملتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اکاؤنٹ کیسا بھی ہو اس میں حرام شروط پر عہد و اتفاق ہوتا ہے۔ اگرچہ فی الواقع آدمی اس میں واقع نہ ہو، شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کہتے ہیں کسی قسم کا اکاؤنٹ بنانا جائز نہیں ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

فتوی ہمیشہ ایسا دینا چاہیے جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور قابل عمل ہو۔ دور حاضر میں بالعموم بینک کے لین دین اور اکاؤنٹ کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ بلاشبہ بینک کا لین دین دینی حوالے سے خطرے سے خالی نہیں ہے۔ با دل ناخواستہ اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سوال: میرے اکاؤنٹ پر والد صاحب نے دس سال کے لیے پیسے رکھوائے ہیں، اس کا ہر ماہ منافع آتا ہے، جمع ہو رہا ہے، کیا وہ میرے لیے جائز ہے، اگر نہیں تو رقم کو کس جگہ استعمال کرنا چاہیے اگلا سوال یہ ہے کہ جو پیسے والد صاحب نے اپنی زندگی میں مجھے دیے ہیں، ان میں بہن بھائیوں کا حصہ بنتا ہے۔

جواب: پیسے پر منافع لینا سود ہے، خواہ بینک سے لیں، یا کسی اور سے لیں، باقی والد صاحب کو تمام بچوں کو برابر دینا چاہیے، کیونکہ زندگی میں ترکہ نہیں ہوتا ہے، ہبہ اور ہدیہ ہوتا ہے، یا بچے راضی ہوں کہ ان کو آپ دے دیں، پھر ٹھیک ہے، بصورت دیگر والد صاحب اولاد کے درمیان عدل کے پابند ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

استاد محترم نے جواب دے دیا ہے ایک بات کا جواب شاید جلدی میں نظر سے رہ گیا ہے کہ جو رقم پہلے سے حاصل ہو چکی ہے اسکو کہاں خرچ کرنا چاہئے اس میں میرے علم میں مندرجہ ذیل دو رائے پائی جاتی ہیں۔

پہلے رائے یہ ہے کہ ہمیں ہر قسم کا سود قطعی نہیں لینا چاہئے اور صرف اپنی اصل رقم ہی واپس لینی چاہئے یہ رائے نص کے ظاہر کے تحت دی جاتی ہے کہ تم اصل لے لو اور جو زاید ہے وہ نہ لو۔

دوسری رائے میں اجتہاد کے تحت ہے کہ اگرچہ زاید رقم سود ہے لیکن وہ رقم اگر بینک کے لئے چھوڑ دی گئی تو وہ اسکو مزید سود میں استعمال کریں گے اور آپ کے پاس یہ اختیار ہے کہ آپ اس سے وہ رقم لے کر کسی فلاحی کام میں خرچ کر سکتے ہو تو وہ

تعاونوا علی البر واتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان

کے تحت اور من رای منکم منکرا فلیغیر بیدہ کے تحت ان سے لے کر کسی فلاحی کام میں لگایا جا سکتا ہے اور اس میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ منکر تو سود لینا بھی ہے پھر اس منکر کو کر کے اگر آپ نے دوسرے منکر (یعنی برائی میں بینک سے تعاون) کو روک بھی لیا تو کون سا فائدہ ہوا یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی ڈاکو کا مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرنا۔

اس پہ دوسرے موقف کی دلیل یہ ہے کہ ایک منکر سود لینا ہے پس اگر آپ خود وہ سود کی رقم لے کر استعمال کر لیں گے تو پھر یہ منکر ہو گا لیکن اگر وہ خود سود نہیں لیتا بلکہ پہے کہتا ہے کہ میں سود چھوڑتا ہوں پس سود چھوڑنے سے اسکا منکر ختم ہو گیا اب لیکن اسکے پاس فلیغیر بیدہ کے تحت وہ پیسے بینک سے لے کر کسی فلاحی کام میں دیے کی استطاعت ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے اس پہ پہلا منکر والا گناہ نہیں ہو گا۔

میری اپنی رائے بعض صورت میں پہلا موقف کی پیروی کی جائے گی اور بعض صورت میں دوسرے کی پیروی کی جا سکتی ہے وہ ایسے جیسے رسول اللہ ﷺ نے خودکشی کرنے والا کا جنازہ خود نہیں پڑھا مگر دوسرے کو منع نہیں کیا کیونکہ جنازہ پڑھنا جائز تھا البتہ اسکا گناہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے باز رہ کر لوگوں کو پیغام پہنچانا بہت ضروری تھاکہ لوگ اسکو چھوٹا نہ لے لیں پس جن کو دیکھ کر لوگ درست غلط کا فیصلہ کرتے ہیں انکو یہ چھوڑ دینا چاہئے کہ لوگوں کو غلط پیغام نہ چلا جائے کہ بقول شاعر وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ