سوال

دو بھائی بیرونِ ملک گئے، وہاں سے باپ کو پیسے بھیجتے تھے، اور باپ اپنے نام سے زمین خرید لیتا تھا۔ اب باپ فوت ہو گیا ہے۔ اس کی اور بھی اولاد ہے۔ كيا یہ خریدی ہوئی زمین صرف انہیں دو بیٹوں کی ہی ہوگی؟ یا پھر اس کے دیگر لڑکے، لڑکیوں کو بھی حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 ہماری مشرقی روایات میں یہ بات معروف ہے کہ باپ اپنی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور بچوں کی نگہداشت ،نشوونما،تعلیمی خرچہ اور ہر طرح کا تعاون کرتا ہے ۔ پھر جوں جوں بچے جوان ہوتے جاتے ہیں تو وہ اپنے باپ کے دست و بازو بنتے ہیں اور محنت ومزدوری کرکے اورکماکر اپنے باپ کو دیتے ہیں اور باپ اپنی صواب دید کے مطابق خرچ کرتا ہے۔ جاگیر ، پراپرٹی ، بینک بیلنس یہ مکمل جائیداد باپ کی ہی تصور ہوتی ہے ۔ بلکہ اولاد کی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا گیا ہے۔ (سنن أبی داود:3530)
 اگر یہ دونوں بھائی اپنے باپ کو وضاحت کردیتےکہ جو پیسے وہ بھیج رہے ہیں، وہ باپ کے پاس بطور امانت ہیں اور اگر کوئی پراپرٹی وغیرہ لی جاتی ہے، تو وہ ان دونوں کی ہی ہوگی۔ تو ایسی صورت میں یہ یہ زمین صرف ان دونوں کی ہوتی، لیکن چونکہ ایسی کوئی وضاحت نہیں تھی، لہذا یہ سب باپ کی ہی ملکیت تصور ہوگی۔اسی لیے باپ نے جو پلاٹ خریدے ہیں وہ اپنے نام پہ ہی خریدے ہیں ۔ اگر ان دو بھائیوں کے اپنے ذاتی ہوتے، تو وہ اس وقت ضرور وضاحت کرتے تھے کہ یہ ہمارے نام کروائے جائیں۔
 لہذا یہ پلاٹس صرف دو بیٹوں کو ملنے کی بجائے، دیگر جائیداد کی طرح تمام اولاد اور ورثا میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوں گے۔ ( مزید تفصیل کے لیے فتوی نمبر 3، 28، 165 ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ