بر صغیر میں تحریک اہل حدیث کے اولین نقوش۔

تذکرہ محمد فاخر ‘زائر’ محدث الہٰ آبادی

بر صغیر دورِ اموی میں ورود اسلام کے بعد سے ہی اسلامی ثقافت کا گہوارہ رہا ہے۔ جنوبی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے ساہلی علاقہ ملیبار کو چھوڑ کر یہاں فقہ حنفی کا ہی غلبہ رہا ہے اور مدت مدید تک یہی عوام و خواص کا مذہب رہا ہے۔ ہندوستان کے اکثر اسلام پسند امراء و ملوک کا سرکاری مذہب بھی مذہب حنفی ہی رہا ہے۔ بر صغیر کے اسلامی دور میں فقہ حنفی کی خاطر خواہ خدمت بھی ہوئی ہے۔ فتاوی عالمگیری اور فتاوی تاتارخانیہ جیسی مستحسن کاوشیں اس خدمت پر شاہد عدل ہیں۔ قانون فطرت ہے کہ ہر عروج زوال اور ہر ترقی جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ دورِ غزنوی کے بعد ہندوستان کے علمی افق پر جمود اور تعصب کا غبار چھانے لگا اور یہاں کے علما کے سارا زور فقہ اور اس کے مندرجات، اصول فقہ اور حمکت و منطق جیسے عقلی علوم کی جانب ہی مرکوز رہا۔ علمِ حدیث یہاں غریب الدیار بن کر رہ گیا اور اس جانب کوئی توجہ نہیں رہی۔ اس حالت کی عکاسی مؤرخ کبیر علامہ عبد الحئی حسنی یوں کی ہے

“ولما انقرضت دولة العرب من بلاد السند، وتغلبت عليها الملوك الغزنوية والغورية، وتتابع الناس من خراسان وما وراء النهر صار الحديث فيها غريبًا كالكبريت الأحمر وعديمًا كعنقاء المغرب، وغلب على الناس الشعر والنجوم والفنون الرياضية، وفي العلوم الدينية الفقه والأصول، ومضت على ذلك قرون متطاولة حتى صارت صناعة أهل الهند حكمة اليونان، والإضراب عن علوم السنة والقرآن إلا ما يُذكر من الفقه على القلة، وكان قصارى نظرهم في الحديث في مشارق الأنوار للصغاني، فإن ترفَّع أحَدٌ إلى مصابيح السنة للبغوي، أو إلى مشكاة المصابيح ظنَّ أنه وصل إلى درجة المحدثين، وما ذلك إلا بجهلهم بالحديث؛ ولذلك تراهم لا يذكرون هذا العلم، ولا يقرءونه ولا يحثُّون عليه ولا يُجذَبون إليه، ولا يعرفون كتبه ولا يعلمون أهله، والقليل منهم كانوا يقرءون المشكاة لا غير، وهذا على طريقة البركة لا للعمل به، والفهم له۔۔۔”

یعنی علمِ حدیث پر ہندوستان میں ایسا غربت کا زمانہ بھی گزرا ہے جہاں کتب حدیث کے نام تک نامانوس ہوچکے تھے، امام صغانی کی مشارق الأنوار حدیث میں منتہائے کمال سمجھی جاتی تھی اور مشکاۃ المصابیح پڑھنے والے کو زمرۂ محدثین میں شمار کیا جاتا تھا۔ مشکاۃ بھی محض حصول برکت کے لیے پڑھی جاتی تھی، فہم و عمل سے اس کا کوئی سروکار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ تاریخ فیروز شاہی بتاتی ہے جب مصر کے ایک فاضل شیخ شمس الدین مصری ہندوستان وارد ہوئے تو مقامی علما کی علمِ حدیث سے اس قدر بے اعتنائی اور لا تعلقی دیکھ کر سخت مایوس اور غمگین ہوئے اور سلطان علاؤ الدین خلجی کے نام اس باپت ایک مکتوب بھی لکھا۔
حجاز مقدس کے لیے علمی سفر کرنے والے چند افراد نے واپسی پر اس حالت زار کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی۔ ان میں سر فہرست شاہ عبد الحق محدث دہلوی کا نام آتا ہے جو بر صغیر میں احیاء اور تدریس حدیث کے ضمن میں مجددیت کے درجے پر فائز ہیں۔ انہی علما میں ایک قابل ذکرِ شخصیت علامہ محمد فاخر ‘زائر’ محدث الٰہ آبادی کی ہے۔ محدث الٰہ آبادی کی ولادت سن ١١٢٠ه‍ میں ہندوستان کی موجودہ ریاست اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد میں اس وقت کے ممتاز عالم دین شیخ محمد یحیی الہ آبادی کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد شیخ یحیی اور برادر اکبر شیخ محمد طاہر الٰہ آبادی سے حاصل کی اور تکمیل کے بعد مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ سن ١١٤٩ه‍ میں عازم بیت اللہ ہوئے اور سعادت حج حاصل کی۔ اس زمانے میں مدینہ طیبہ میں علامہ محمد حیات سندھی کا درس حدیث جاری تھا۔ موقعہ غنیمت جان کر حلقۂ درس میں شامل ہوئے اور حدیث کی مروجہ کتابیں پڑھ کر سند اجازت حاصل کی۔ دیار نجد کے مجدد شیخ محمد بن عبد الوہاب کو بھی شیخ محمد حیات سندھی سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ محدث الٰہ آبادی کے ایک اور استاد علامہ آزاد بلگرامی سے امامِ ہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو بھی شرف تلمذ حاصل ہے، اس واسطے محدث الٰہ آبادی دونوں مجددین کے “شاگرد بھائی” شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ محدث الٰہ آبادی نے حجاز کی طرف دو سفر اور کیے اور اپنے زمانے کے لحاظ سے اس کثرت زیارت حرمین کے سبب ‘زائر’ لقب سے ملقب ہوئے۔ محدث الہٰ آبادی عمدہ ترین اوصاف سے متصف اور بہرہ مند تھے۔ طبعاً عابد زاہد صوفی منش تھے۔ کسی چیز کو بچا کر اور ذخیرہ بنا کر نہ رکھتے، اپنے اور بیگانوں پر بے دریغ احسان کرتے۔ نواب صاحب بھوپالی نے ان کے بارے میں لکھا ہے “وے رحمہ اللہ تعالی امام ائمہ متبعین سنت سر زمین ہند و شیخ الشیوخ اکابر علما ارجمند ،ظاہرش محدث بود و باطنش صوفی”. محدث الٰہ آبادی اپنے معاصر علما کے ہاں معزز و مکرم تھے۔ صاحب مآثر الکرام نےلکھا ہے کہ مرزا مظہر جانِ جاناں اپنی عادت کے خلاف مولانا فاخر کی ملاقات کے لیے خود جاتے. اسی طرح علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب نے اپنی “تفسیر مظہری” میں لکھا “الشيخ الأستاذ محمد فاخر المحدث رحمه الله يكره ذالك (أي المسجد عند القبر) مستدلا بما عند مسلم رحمه الله عن أبي الهياج” یعنی ” علامہ استاد محمد فاخر محدث صحیح مسلم مین منقول حدیثِ ابی الہیاج سے استدلال کرتے ہوئے قبر کے پاس مسجد بنانے کو مکروہ جانتے ہیں”.
شرعی مسائل میں محدث الہٰ آبادی کسی مسلک کی پابندی نہیں کرتے تھے اور قوت دلیل کو مشعل راہ بناتے تھے۔ علامہ عبد الحئی حسنی رقم طراز ہیں “وكان لا يتقيد بمذهب ولا يقلد في شيئ من أمور دينية بل كان يعمل بنصوص الكتاب والسنة ويجتهد برأيه وهو أهل لذلك”. حکایت ہے کہ بر صغیر میں سب سے پہلے “آمین بالجہر” کی بحث عملاً چھیڑنے والے محدث الہٰ آبادی ہی تھے۔ حجاز کے سفر سے واپسی پر دلی کی جامع مسجد میں آمین بالجہر کر بیٹھے۔ عوام کے لیے یہ ایک نئی بات تھی اور بعد از نماز انہوں نے شیخ کو گھیر لیا اور کچھ پوچھ تاچھ ہونے لگے۔ بڑھتے بڑھتے معاملہ دربارِ ولی الٰہی میں پہنچا، شاہ صاحب نے لوگوں کو سمجھایا کہ امیں بالجہر ثابت ہے، لوگ منتشر ہوئے اور مجلس میں یہ دونوں رہ گئے۔ موقع پاکر محدث الہٰ آبادی نے شاہ صاحب سے پوچھا، “آپ کُھلتے کیوں نہیں؟”، شاہ صاحب نے جواباً فرمایا، “اگر کُھل جاتا تو آج آپ کو کیسے بچا لیتا؟”. تصانیف میں رسالہ نجاتیہ، نور السنۃ، قرۃ العین در اثبات رفع الیدین، نظم سفر السعادۃ، درۃ التحقیق فی نصرۃ الصدیق، منظومۃ در مدح اہل الحدیث کا نام ملتا ہے۔ رسالہ نجاتیہ عقائد لر مشتمل مختصر متن ہے جس میں رائج البلد کلامی مذاہب، اشاعرہ اور ماتریدیہ کے مقابل مذہب محدثین پر مسائل نقل کیے گئے ہیں۔ مسئلہ استواء علی العرش کی تائید میں فرماتے ہیں “اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر عرش بریں پر بلند ہے۔۔۔”. اہل سنت والجماعت کے بارے میں فرماتے ہیں “اہل سنت کے تمام مذاہب میں حق موجود ہے اور ہر مذہب کے بانی کو حق سے کوئی نہ کوئی حصہ ملا ہے مگر اہل حدیث کامذہب دیگر تمام مذاہب سے زیادہ حق پر ثابت ہے کیونکہ تمام مذاہب کی حق باتیں اس میں جمع ہوگئی ہیں۔۔۔۔”
محدث الہٰ آبادی ٤٤ برس کی عمر پاکر سن ١١٦٤ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے اور اپنی وصیت کے مطابق برہان پور میں شیخ عبد اللطیف کے سرہانے دفن ہوئے۔
رحمهم الله تعالىٰ أجمعين.

(سہیل خالق)

یہ بھی پڑھیں: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا