سوال

1: ۔ طلاق یا خلع کی صورت میں اسلامی قانون کے تحت بچوں کی کفالت، کسٹڈی اور حقوق ماں کا حق ہوتا ہے ،یا باپ کا؟ اور بیٹا کس عمر تک ماں یا باپ کو ملے گا ؟
2: فی زمانہ باوجود باپ کی کوشش کے، اور باپ کی مرضی کے خلاف انگلش قانون کے تحت بچوں کو ماں کی تحویل/ کسٹڈی میں دے دیا جاتا ہے، اور باپ کو محدود ملاقات کا حق دیا جاتا ہے۔ کیا یہ عمل اسلام کے حساب سے جائز ہے؟
3: باوجود باپ بچوں کا خرچہ دیتا ہو اور ماں بچوں کو باپ سے ملنے نہ دے، تو اسلام میں اس کا کیا حکم ہے؟
4: اسلام میں طلاق یا خلع کی صورت میں اسلامی قانون کے تحت عورت کے کیا حقوق ہیں۔؟
5: باوجود نکاح نامہ کے تحت تمام شرائط پوری کردی ہوں، حق مہر ادا کر دیا ہو، اور(عورت کی ڈیمانڈ پر) علیحدگی/خلع سے قبل اضافی کنٹریکٹ کے تحت تعمیر شده مکان ، پلاٹ ، ٖفلیٹ، گاڑی، اور ماہانہ خرچہ دینے کے باوجود عورت کا سابقہ شوہر کی جائیداد پر انگلش قانون کے تحت عدالت میں مقدمات دائر کرنا جائز ہے؟
6: عورت/بیوی کا علاوه حق مہر کے، تحت تعمیر شده مکان ، پلاٹ ، ٖفلیٹ، گاڑی، کی ڈیمانڈ، اور امانت کے طور پر دی گی رقم واپس نہ کرنا جائز ہے ؟
7: اگر شادی اسلامی قانون کے تحت پاکستان میں ہوئی ہو، اور طلاق یا خلع بھی پاکستان میں ہوا ہو، اسکے بعد عورت کا باوجود مسلمان ہونے کہ ، الله کے قانون کو چھوڑ کر انگلش قانون کو (بیرون پاکستان) اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنا جائز اور حلال ہے ؟
8:عورت کا یہ کہنا کہ : جو مجھے جو چاہیے تھا میں نے لے لیا، اب جو کچھ بھی بچوں کے باپ کے پاس ہے وه میرےبچوں کا ہے، لہذا میں وه لے رہی ہوں۔ ( جبکہ باپ حیات ہو ) پہلے عورت کا بچوں کو باپ سے عدالت کے تحت محروم کرنا، پھر بچوں کے نام پرزبردستی انگلش قانون کے تحت عدالتی کاروای میں گھسیٹنا اور مالی نقصان دینا جائز ہے ؟
9: باوجود مسلمان ہونے کے اسلامی قوانین کو تسلیم نہ کرنا، دین اسلام کو اور علمائے دین کو برا بھلا کہنے پر اسلام میں کیا وعید ہے؟
10: ایسے لوگ جو حق بات کرنے کی بجائے ایسی عورت کا ساتھ دے رہے ہوں اور دلیل یہ ہو کہ وه تو صرف بچوں کے حقوق کی وجہ سے اس کا ساتھ دے رہے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں دین اسلام میں کیا حکم ہے ؟
11: سمجھ بوجھ اور جاننے کے باوجود ، اپنے مالی فائدہ کیلئے انگلش قانون کو الله کے قانون پر فوقیت دینے اور اس کا ساتھ دینے والوں کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔ نیز اسلامی احکامات کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کی کیا سزا ہے؟
نیز اسلامی احکامات کو مولویوں کی بکواس کہنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اصغر خورشید مقیم سنگاپور

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بشرط صدق و صحتِ سوال، مذکورہ صورتوں کے جوابات درج ذیل ہے:
 حقِ حِضانت ایک مشترک حق ہے، ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، لیکن جب خلع یا طلاق کے ذریعے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور بچے ابھی چھوٹے ہوں تو اس صورت میں عمومی قاعدہ اور اتفاقی مسئلہ یہی ہے کہ ماں کا حقِ حِضانت سب پر مقدم ہے، جب تک اس نے عدت کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہ کیا ہو۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ:

“أنّ امرأة قالت: يا رسول الله إِنّ ابني هذا كان بطني له وعاءً وثديي له سقاءً، وحِجري له حواءً، وإنّ أباه طلَّقني، وأراد أن ينتزعه منّي. فقال لها رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: أنتِ أحقُّ به ما لم تنكحي” [سنن أبي داود”: 1991 وحسَّنه الشیخ الألبانی رحمه الله- في “الإِرواء” :2187]

’ایک عورت کو خاوند نے طلاق دی اور اس سے بچہ بھی چھیننا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا: حضانت کی تو ہی زیادہ حقدار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے‘۔
 جب بچہ سن تمییز کو پہنچ جائے اور مزید حضانت کی اسے اس طرح حاجت نہ ہو جس طرح ابتدا میں ہوتی ہے تو اس صورت میں دیگر مُرجِحات نہ ہونے کی صورت میں بچے کو اختیار دیا جائے گا، وہ ماں باپ میں سے جس کا انتخاب کرے، اسے رکھنے کا حق حاصل ہوجائے گا۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:

“إِنَّ امرأة جاءت رسول الله – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فقالت: فداك أبي وأمّي، إِنّ زوجي يريد أن يذهب بابني، وقد نَفَعَني وسقاني من بئر أبي عِنبة فجاء زوجها وقال: من يخاصمني في ابني؟ فقال: يا غلام! هذا أبوك، وهذه أمّك، فخذ بيد أيّهما شِئتَ. فأخَذ بيد أمّه، فانطلقَت به” [سنن أبي داود: (2277)، والترمذي “صحيح سنن الترمذي” (1094)، وابن ماجه “صحيح سنن ابن ماجه” (1903)، سنن النسائي” (3496)، واللفظ له. و صححه الشيخ الألباني رحمه الله في “الإرواء” (992)]

’ایک عورت بچے کو لے آئی اور کہا کہ میرا سابقہ خاوند اسے اپنے ساتھ لیجانا چاہتا ہے، جبکہ یہ اب مجھے فائدہ بھی دیتا ہے (میرے لیے کام کاج کرتا ہے) اور میرے لیے أبو عنبہ کے کوئیں سے پانی بھی لاتا ہے۔ اس دوران اس بچے کا باپ بھی آیا اور اس نے بھی مطالبہ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں قرعہ ڈالو، (جس کے نام قرعہ نکل آیا، بچہ وہ لے جائے) باپ اس پر راضی نہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے فرمایا: یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے، دونوں میں سے جس کا چاہو ہاتھ پکڑ، اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا اور ماں اسے اپنے ساتھ لے گئی‘۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے الروضۃ الندیۃ (2/ 338) کی تعلیقات میں اس کے تحت لکھا ہے:

“وينبغي أن لا يكون هذا على إِطلاقه، بل يقيّد بما إِذا حصلت به مصلحة الولد؛ وإلا فلا يلتفت إِلى اختيار الصّبي، لأنه ضعيف العقل”

’مناسب یہ ہے کہ اس کو مطلقا اور عمومی حکم سمجھنے کی بجائے، بچے کی مصلحت کے ساتھ مقید کیا جائے، محض بچے کے انتخاب کو بنیاد نہ بنایا جائے، اس لیے کہ ابھی وہ ضعیف العقل ہے‘۔
اس لیے جب بچہ تمییز اور سمجھ کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر اس معاملہ سے متعلق مسلمان قاضی ( اور مسلمان قاضی نہ ہونے کی صورت میں مسلمانوں کی کسی بااعتماد کمیونٹی) کے پاس لیجاکر فیصلے کرائے جائیں، وہ بچے کی مصلحت اور فائدے کو سامنے رکھتے ہوئے، جو بھی فیصلہ کریں، اسے قبول کیا جائے۔
 پھر بچہ جس کے پاس بھی ہو، دوسرے فریق کو حق حاصل ہے کہ بچے سے مناسب دورانیہ کے بعد اور قاضی کے فیصلے کی روشنی میں ملاقات کرے، اگر کوئی بھی فریق جس کے پاس بچہ ہے دوسرے کو ملنے نہیں دیتا تو وہ شرعا اور قانونا گناہگار ہے۔
 اسلام میں طلاق کے بعد عورت کا حق یہ ہے کہ اسے طے شدہ مہر دے دیا جائے ۔ اسی طرح رجعی طلاق کی صورت میں انتہائے عدت تک نان نفقہ اور رہائش بھی خاوند کے ذمہ ہیں۔
خلع کی صورت میں اگر بیوی نے مہر پہلے وصول کرلیا ہے تو اب وہ مہر خاوند کو واپس دے دی گی اور اگر بیوی نے مہر اس سے قبل وصول نہیں کیا ہے تو اب لینے کی حقدار نہیں ہے۔
طلاق کی صورت میں عورت مہر کی حقدار ہے اور ان چیزوں کی حقدار ہے جو خاوند نے اسے پہلے بطور گفٹ دی ہیں۔خلع کی صورت میں عورت مہر واپس کرے گی، البتہ خاوند نے جو ازدواجی زندگی میں اسے کوئی اور چیزیں تحفے میں دی ہیں ان کی واپسی کا مطالبہ خاوند نہیں کرسکتا۔
 علاوہ ازیں مسلمان مرد اور عورت کے لیے کافرانہ قوانین کے تحت فیصلے کرانا جائز نہیں، خصوصا جس میں دوسروں کا مال ناحق طور پر کھایا جاتا ہو. اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ (النساء: 65)

’نہیں، اے نبی، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

تحریر کنندہ: ( فضیلۃ الشیخ ) مفتی عبد الولی خان ( حفظہ اللہ )
’ جواب صحیح ہے‘۔
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ