رحمت کی برسات ہونے سے پہلے ٹھنڈی مہربان پُرْوا یوں چلنا شروع ہوئی کہ روح تک میں سکینت اترنا شروع ہوئی۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
پُورب سے پٙچٙھم اور اُتّر سے دٙکٙھن ہر ہر سمت سے نشانیاں ظہور پذیر تھیں کہ انسانیت کی صدیوں کی پیاس بجھنے کو ہے، انتظار ختم ہونے کو ہے اور ماہ کامل زمیں پر اترنے کو ہے۔
پرانی کتابوں میں جابجا لکھا تھا اور یہودونصاریٰ کے بڑے علماء کو خبر تھی کہ یہ برکھا اس بار صحرائے عرب کا مقدر ہے، کہ جس کی کوکھ صدیوں سے اجڑی پڑی بار آوری کے انتظار میں تھکی ہاری منتظر ۔۔۔۔ محبوب کو پکار رہی تھی
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
۔۔۔یہود کہ علم کی راہوں کے راہرو تھے اور اپنی کتاب تورات و انجیل سے گہرا تمسک و تعلق رکھتے تھے، اس علاقے میں اٹھ آئے کہ انہیں معلوم تھا کہ تہامہ ارض بعثت نبوی ہے اور یثرب دارالہجرہ ہے، نصاریٰ گو یوں مضطرب تو نہ تھے لیکن انہیں بھی یہ معلوم تھا کہ رسول مکہ میں مبعوث ہوں گے وہاں ستائے جائیں گے اور مدینے میں آ کر قیام کریں گے۔ سو ان کے چنیدہ چنیدہ علماء بھی کبھی کبھار تاریخ کے پنوں میں درگاہیں بنائے نظر آتے ہیں کہ جانتے تھے کہ خاتم الانبیاء کے آنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ابی طالب کے ساتھ جس راہب کی ملاقات ہوئی تھی اور پھر سفر تجارت میں سیدہ خدیجہ کے غلام میسرہ کو جس راہب نے حضور کی نشانیاں بتلائی تھیں وہ دونوں عیسائی ہی تھے۔
سو ان دونوں ادیان کے علماء ان علاقوں میں آئے بیٹھے تھے۔ انتظار اور شدید انتظار کہ آخری نبی آئیں اور وہ ان کی راہوں میں پلکیں بچھائیں۔
یہاں ایک دلچسپ پہلو بتاتا چلوں کہ کیا وجہ ہوئی جب اسماعیل علیہ السلام کے نور نظر محمد ابن عبداللہ سلام اللہ علیہ آئے تو یہی ۔۔یہود پلٹ کے دشمنی پر آمادہ ہوئے ۔ یہ شدید ترین نسلی تعصب تھا کہ جو رگ و ریشے میں سما گیا تھا کہ جس نے ان کو حق قبول نہ کرنے دیا۔ ان کا یقین کی حد تک پہنچا گمان تھا کہ آخری نبی بنی اسحاق میں سے آئیں گے۔
جناب ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ایک اسماعیل علیہ السلام دوسرے اسحاق علیہ السلام۔ اسماعیل کو ان کی والدہ سیدہ ہاجر سمیت جناب ابراہیم علیہ السلام مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کر گئے اور اسماعیل کے دم قدم سے یہ خرابہ آباد ہوا اور یوں آباد ہوا کہ چہرہ کائنات ہوا اور مرکز انسانیت ٹہرا۔
اسماعیل علیہ السلام آئے صدیاں گزریں، ان کی اولاد یہاں پھلی پھولی لیکن کوئی نبی نہ آیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام کنعان کے علاقوں میں آباد رہے، شاد رہے، دریاؤں کی سرزمین، میٹھے پانیوں کا علاقہ، زیتون کے باغات اس دور کی سب سے متمدن اور ترقی یافتہ سرزمین آل اسحاق کا وطن ہوئی۔ زمانے کے سرد و گرم دھوپ چھاؤں اپنی جگہ اور کبھی زوال کبھی عروج ان کا مقدر ہوا۔ مسلسل انبیاء ان میں مبعوث ہوتے رہے سو ان کو عادت ہی نہ رہی کہ بنی اسحاق سے ہٹ کر بھی کوئی نبی آ سکتا ہے۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کی کتابیں کہتی ہیں کہ آخری نبی مکہ میں آئے گا، ستایا جائے گا، وطن سے نکالا جائے گا اور ہجرت کر کے یثرب کو اپنا مقام بنائے گا اور پھر اس دارالحجرہ سے لشکروں کے لشکر نکلیں گے اور دنیا زیر نگیں ہو جائے گی۔ سو اس عروج کو پانے کی خواہش تو بہت تھی لیکن مقدر ہار گئے۔ اگر ایمان دل میں ہوتا، خاندان، نسل کا بیماری کی حد تک پہنچا تعصب دل میں نہ اترا ہوتا تو فوراً مان لیتے۔ لیکن نہ مانا جب کہ صحرائے عرب میں ہر سو پھیلے بکھرے علماء نشانیاں تلاش کرتے پھرتے تھے۔ علامتیں پوری ہو رہی تھیں، رحمت کی برکھا برسنے سے پہلے علامتوں ، نشانیوں اور بشارتوں کی صورت میں ہلکی ہلکی پھوار مہربان نرم ہوا چل رہی تھی لیکن یہ تو مقدروں کے سودے تھے۔
آپ کی بعثت سے پہلے کچھ واقعات یوں تسلسل سے پیش آئے کہ جس کا دل ، دل بیمار نہ تھا اس نے ہی ہمارے حضور کے پاؤں پہ آ کر سر رکھ دیا اور جس کا دل اتنا بیمار تھا کہ برسوں سے شام و فلسطین کی پرفضا وادیاں چھوڑ کر ، ارض کنعان کے باغات چھوڑ کر آخری نبی کے انتظار میں اس گرم صحرا میں آ کر بیٹھا تھا ۔ صرف اس بات کے سبب کہ آخری رسول اسماعیل کی اولاد سے نکلا وہ دشمنی پر آمادہ ہو گیا۔ حالانکہ سب کچھ اتنا واضح تھا اتنا روشن تھا کہ انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
جن کے دل زندہ تھے وہ ایسے تھے کہ عاصم بن عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ ہم بت پرست تھے اور ۔۔۔یہود اہل کتاب تھے، صاحب علم و عرفان تھے ۔ ہماری ان سے اکثر لڑائی رہتی جب ہم ان کو کوئی نقصان پہنچاتے اور وہ عاجز آ جاتے تو بڑے طمطراق سے کہتے کہ :
“فکر نہ کرو آخری نبی کی بعثت کا وقت قریب آن پہنچا ہے قریب ہے یارو روز محشر
چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
ہم اس کے ہمراہ تم کو اسی طرح قتل کریں گے جس طرح عاد و ارم کو قتل کیا گیا ” ۔
عاصم بن عمر کہتے ہیں کہ ہم یہ باتیں ان سے سنتے رہتے لیکن رسول مبعوث ہوئے اور ہم کو اللہ کے دین کی طرف بلایا تو ہم قبول کر گئے اور سمجھ گئے اور مسلمان ہو گئے۔ اور جو ہمیں اسی نبی کی آمد کی دھمکیاں دیا کرتے تھے وقت آیا تو اسی نبی کے ساتھ دشمنی پر کمربستہ ہو گئے اور وہ کفر۔۔۔پر بضد رہے۔
عرب سادہ تھے اور مسلسل کچھ عرصے سے وہ اپنے ماحول میں موجود سامی ادیان کے علماء اور کانوں سے آخری نبی کی امد کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سنتے رہتے سو یہی سبب ہوا کہ جب آپ کی بعثت ہوئی تو ان کے لیے کوئی ایسا مشکل نہ تھا فیصلہ کرنا۔
اس سے اندازہ کیجئے کہ عبدالاشہل یہ یہودی تھا۔ سلمہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک روز بیٹھا یوم حشر قیامت جنت جہنم کا ذکر کرنے لگا تو بت پرست حاضرین اس پر اس کا مذاق اُڑاتے کہ قیامت، کون سی قیامت ، کون مرنے کے بعد زندہ ہوگا اور کیسی جنت کیسی جہنم ؟
تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم مجھے دنیا میں اگر آگ کے تندور میں بند کر دیا جائے اور میں روز قیامت کی آگ سے نجات پا جاؤں تو کوئی افسوس نہ ہوگا اس پر حاضرین کچھ سنجیدہ ہوئے اور پوچھا کہ پھر اس کی علامات کیا ہیں؟
تو اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کر کے کہا اس طرف آخری نبی آئیں گے۔
لوگوں نے پوچھا کب؟
تو اس نے مجلس میں نگاہ دوڑائی اور میں سب میں کمسن تھا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگا “اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو ان کا عہد پا لے گا ۔”
سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں واللہ وقت گزرا حتیٰ کہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما دیا ۔ وہ یہودی ابھی زندہ ہے ہم مسلمان ہو گئے ، لیکن اس نے حسد اور بغض کے سبب انکار کر دیا ۔ ہم نے اس سے کہا کہ کیا تو نے اس روز ہمیں بتایا نہ تھا اس نے کہا ہاں بتایا تھا مگر یہ نبی وہ نہیں۔۔
یہ تو مقدروں کے کھیل ہوتے ہیں۔ زید بن سعید رضی اللہ تعالی عنہ وہ بھی انہی یہود میں سے تھے جن کا قصہ ہمارے ہاں بھی بچے بچے کو معلوم ہے کہ اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرض دیا اور دانستہ قرض کی ادائی کی طے شدہ تاریخ سے ایک روز پہلے ہی تلخ رو ہو کے پوچھا :
“اے محمد اب میرا قرضہ ادا کیوں نہیں کرتے ۔
واللہ اے اولاد عبدالمطلب !
تم لوگ تو ٹال مٹول سے کام کرتے ہو لیتے ہو، قرض کی ادائی میں خواہ مخواہ ہی دیر کیا کرتے ہو”
اور یہ کہا اور آپ کے گریبان کو پکڑ کر برے طریقے سے کھینچا اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خاصا برا بھلا کہا۔۔ لیکن رسول سکون و اطمینان سے تبسم فرماتے ہوئے، بنا تلخ ہوئے، سیدنا عمر کو کہتے کہ:
” عمر! اس سے بہتر تھا کہ تم مجھے اچھے طریقے سے ادائیگی کرنے کا مشورہ دیتے اور اس کو اچھے طور پر اپنا قرض وصول کرنے کا مشورہ دیتے جاؤ اب ان کا قرض ادا کرو اور بیس صاع کھجور مزید دے دو۔
دیکھیں کیسا عجب ماجرا ہے کہ عبدالاشہل لوگوں کو نشانیاں بتلاتا ہوا مسلمان نہ ہوا اور زید بن سعید نشانیاں تلاش کرتے ہوئے مسلمان ہوگئے اور غزوہ تبوک والے برس میں فوت ہوئے، یہود کے ساتھ تو اس شعر والا معاملہ ہوا کہ :
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
اور سیدنا سلمان فارسی کا قصہ تو سب کو معلوم ہے طوالت کے خوف سے میں اسے نقل تو نہیں کرتا لیکن جب سلمان فارسی آخری نبی کی تلاش میں نکلے، منزلوں پر منزلیں مارتے ، شہروں کے شہر عبور کرتے مختلف علماء سے راستے میں پوچھتے تاچھتے مدینہ پہنچے تو ان کو بھی ایک راہب نے کہا تھا :
” آخری نبی کے ظہور کا زمانہ قریب آ چکا ، وہ تحفہ کھائے گا صدقہ نہ کھائے گا ، اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہے تہامہ سے مبعوث ہوگا ، نام احمد ہوگا ۔ سلمان ! میں تو بوڑھا ہو چکا مجھے نہیں امید کہ میں اسے دیکھ پاؤں لیکن اگر تم ان کا عہد پاؤ تو ضرور مسلمان ہونا ”
سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تھا کہ اگر وہ مجھے عیسائیت کے ترک کرنے کا حکم دے تو کیا تب بھی ؟
تو اس بزرگ نے کہا تھا :
” ہاں سلمان ! اس کی تعلیمات حق ہیں ، صداقت ہیں اور اس کی رضا میں رب کی رضا ہے”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کی بعثت کا آغاز کیسے ہوا ؟
تو آپ نے فرمایا تھا :
“میں ابراہیم کی دعا ہوں ، عیسی کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کا خواب ہوں کہ جو انہوں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے”
آپ کی بعثت کا زمانہ قریب آیا تو جنات و شیاطین کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا وہ آسمانوں کے قریب پہنچتے تو اب ان پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ۔ان کو خبریں ملنی بند ہو گئی زمانہ بہت قریب آ گیا تھا بہت قریب کوئی روز جاتا تھا کہ جبرائیل آتے ۔۔۔
صلی اللہ علیہ وسلم

ابوبکر قدوسی